بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کنڈے کی بجلی استعمال کرنے کا حکم


سوال

 ہمارے ہاں ایجنٹ ہوتے ہیں جو ہر محلے میں بجلی کے میٹر لگاتے ہے اور جس کے ہاں میٹر لگا ہوہو اس سے ماہانہ 2 ہزار روپے لیتے ہیں۔ اور انکا (کے ای) کے لوگوں کا ساتھ بھی لین دین ہوتا ہے تو پوچھنا یہ تھا کہ کیا اس طرح بجلی استعمال کرنا جائز ہے؟  اور ہمارے ہاں یہ دلیل دی جاتی ہے اسکے جائز ہونے کی کہ حکومت ہمارے حقوق نہیں دیتی اور بل بھی زیادہ آتا ہے اسی وجہ سے ہم اس طرح کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم پیسے بھی تو دیتے ہیں انکو 2 ہزار ماہانہ تو کیا انکے دلائل صحیح ہیں ؟ 

جواب

یہ درحقیقت   چوری کی بجلی کا استعمال ہے،  جو کہ  شرعًا و قانوناً نہ صرف نا جائزہے، بلکہ بہت بڑا گناہ  بھی ہے۔محکمے کے لوگ جو دوہزار روپے ماہانہ لیتے ہیں وہ درحقیقت رشوت ہے اور ایسا محکمے کی اجازت کے بغیر رشوت خور ملازم کرتے ہیں البتہ اگر کسی جگہ محکمے کی پالیسی ہی یہ ہو کہ فی میٹر دو ہزار روپے ہوں گے چاہے استعمال جتنا بھی ہو تو پھر جائز ہوگا مگر ظاہر یہی ہے کہ محکمے کی ایسی پالیسی نہیں بلکہ کرپٹ ملازمین چوری چھپے ایسا کرتے ہیں۔جو دلائل اس کے جواز کے دیے جاتے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"كتاب السرقة (هي) لغة أخذ الشيء من الغير خفية.

قال القهستاني: وهي نوعان؛ لأنه إما أن يكون ضررها بذي المال أو به وبعامة المسلمين، فالأول يسمى بالسرقة الصغرى والثاني بالكبرى، بين حكمها في الآخر؛ لأنها أقل وقوعا وقد اشتركا في التعريف وأكثر الشروط اهـ أي؛ لأن المعتبر في كل منهما أخذ المال خفية، لكن الخفية في الصغرى هي الخفية عن غين المالك أو من يقوم مقامه كالمودع والمستعير. وفي الكبرى عن عين الإمام الملتزم حفظ طرق المسلمين وبلادهم كما في الفتح."

(ج:4، ص:82،  ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"وكل ما أدى ‌إلى ‌ما ‌لا ‌يجوز لا يجوز."

(كتاب الحظر والإباحة، ‌‌فصل في اللبس، ج:6، ص:360، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولا يجوز حمل تراب ربض المصر لأنه حصن فكان حق العامة."

( الباب الثلاثون في المتفرقات،ج:5، ص:373،  ط: دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501101025

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں