بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کلما کی قسم کھانا


سوال

 خالد ایک فعل بد کا شکار تھا ، جس کو مشت زنی کہتے ہیں،  اس نے اس فعلِ بد سے بچنے کے لیے باتھ روم میں قسم کھالی کہ میں کلما کی قسم کھاتا ہوں آج کے بعد یہ کام نہیں کروں گا، جب کہ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ( میں کلما کی قسم کھاتا ہوں) تو کیا مسئلہ ذیل میں خالد کی قسم واقع ہو جائے گی یا نہیں؟

جواب

عوام میں جو  ’’کلما کی قسم‘‘  یا ’’کلما کی طلاق‘‘  رائج ہے، (یعنی  پورے الفاظِ قسم یا الفاظِ طلاق کی ادائیگی  کے بغیر صرف کلما کا عنوان ذکر کرنا)اس پر قسم یا طلاق کے شرعی اَحکام مرتب نہیں ہوتے؛   لہذا صورتِ  مسئولہ میں خالد کی قسم منعقد نہیں ہوئی اور  یہ فعلِ بد اگرچہ بہت بُرا فعل ہے اور اس کے کرنے سے وہ شخص  سخت گناہ گار ہوگا،  لیکن  چوں کہ قسم منعقد نہیں ہوئی اس لیے قسم  توڑنے کا کفارہ  لازم نہ ہوگا ، تاہم آئندہ اس طرح کی قسم کھانے سے اجتناب لازم ہے۔

نیز اگر اس کی مراد ’’کلما  کی قسم‘‘ سے کلما کی طلاق ہے  تو بھی کلما کی طلاق"  کوئی طلاق نہیں ہوتی، مثلاً: کوئی یوں کہہ دے کہ’’مجھ پر کلما کی طلاق ہے‘‘  تو اس سے کوئی طلاق نہیں ہوگی۔البتہ اگر کوئی "کلما" کے الفاظ اپنی  جانب سے یوں ادا کرے’’کلما تزوجت فهي طالق‘‘، یعنی یہ  کہے کہ ’’جب جب میں شادی کروں تو میری بیوی کو طلاق ‘‘، تو ہر بار  شادی کرنے پر طلاق واقع ہوتی ہے،  لہٰذا مذکورہ صورت میں اس شخص نے جو الفاظ  سوال میں مذکور ہیں اگر وہی کہے ہیں تو  نکاح کرنے کی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔

حاشية رد  المحتار على الدر المختار (3/ 247):

’’ قال في نور العين: الظاهر أنه لا يصح اليمين؛ لما في البزازية من كتاب ألفاظ الكفر: إنه قد اشتهر في رساتيق شروان: أن من قال: جعلت كلما، أو علي كلما، أنه طلاق ثلاث معلق، وهذا باطل، ومن هذيانات العوام اهـ  فتأمل‘‘. 

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں