بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کلما کی قسم کا شرعی حکم


سوال

ایک شخص   کے پاس  اس کے والد کی ایک دوکان تھی ،گھر والوں کو اس شخص کے بارے میں دوکان کے حوالے سے اطمینان نہیں تھا اور ڈر تھا کہ کہیں وہ دوکان میں چوری وغیرہ کرکے دوکان ختم نہ کر ڈالے،  اس شخص نے اپنے گھر والوں کے ساتھ یہ  مخصوص مدت تک کے لیے یہ معاہدہ کیا کہ"میں دوکان میں کسی قسم کی بھی کوئی چوری نہیں کروں گا ،اگر میں نے چوری کی تو کلما کی قسم، میری بیوی کو طلاق ہے" بعد ازاں اس شخص نے حتی الامکان کوشش کی کہ دوکان میں کسی قسم کی کوئی چوری یا ایسا کام نہ کرے کہ جس سے مذکورہ  معاہدہ کی خلاف ورزی ہواور وہ اس میں کامیاب بھی رہا۔

 اس معاہدہ کے بعد اس شخص کے بارے میں خفیہ انکوائری ہوتی رہی ، مگر گھر والوں کو کوئی ایسا ثبوت نہ ملا کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ  وہ دوکان میں سے رقم چوری کررہا ہے ،بعد از انکوائری معاہدے کی مدت مکمل ہونے کے کچھ سالوں بعد وہ معاہدہ پھاڑ دیا گیا اور وہ شخص اس معاہدےسے آزاد هوگیا۔  اب کچھ عرصہ سے اس شخص کی بیوی کو یہ شک ہورہا ہے کہ وہ معاہدہ جو کیا تھا، اس معاہدہ کی رو سے وہ مطلقہ ہوگئی ہے کیوں کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور ممکن ہے کہ لا شعوری طور پر شوہر سے رقم کا ہیر پھیر ہوگیا ہو۔

آپ سے التماس ہے کہ درج ذیل   سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں تاکہ شکوک و شبہات ختم ہوسکیں:

1: کیااس " کُلَّما " کے لفظ سے طلاق واقع ہوجائے گی؟ اگر ہوگی تو کون سی طلاق واقع ہوگی اور کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟اور اس دوران اگر اولاد پیدا ہوجاۓ تو اس کا کیا حکم ہوگا؟

2:اگر طلاق واقع ہوجائے تو رجوع کے لیے نکاح ِثانی کی ضرورت ہے ؟ اور کیا نکاحِ ثانی میں گواہان کاشامل ہونا ضروری ہوگا؟ جس طرح کہ نکاح اول میں شامل ہوئے تھے ،یا خود ہی نکاح پڑھ کر تجدیدِنکاح کرلیں ؟

3:" کُلَّما" کے لفظ والی عبارت کس طرح کہنے سے  طلاق واقع ہوجاتی ہے؟ 

جواب

1،2،3:واضح رہے کہ لوگوں میں جو کلما کی قسم  مشہور ہے،جس سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قسم کھانے والا جب نکاح کرے گا تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوجاۓ گی ،یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب  قسم کھانے والا اس طرح قسم کھاۓ کہ"  جب جب میں کسی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق" تو اس صورت میں قسم کھانے والا شخص جب بھی کسی عورت سے نکاح کرے گاتو فوراً اس عورت پر طلاق واقع ہوجاۓ گی اور نتیجتاً اس شخص کے نکاح میں کوئی عورت باقی نہیں رہے گی،یہی اصلاً کلما کی قسم ہے، جو شرعی اعتبار سے اپنا مستقل حکم رکھتی ہے۔ 

لیکن اگر اس طرح قسم کھاۓ کہ "میں کلما کی قسم کھاتا ہوں" تو یہ قسم شریعت میں معتبر نہیں،یعنی اس طرح قسم کھانے سےاس پر قسم یا طلاق کے شرعی احکام مرتب نہیں ہوتے،چاہے اس لفظ کے ذریعہ قسم کی نیت ہی کیوں نہ کی ہو، اس لیے کہ شریعت میں قسم کے اندر  نیت کا اعتبار نہیں ہوتا بلکہ الفاظ کا عتبار ہوتا ہے۔

مذکورہ تفصیل کے بعد سوال میں موجود جملے"اگر میں نے چوری کی تو کلما کی قسم، میری بیوی کو طلاق ہے"  میں جو کلما کی قسم  شوہر نے کھائی ہے وہ دوسری صورت سے متعلق ہے؛ اس لیے "کلما کی قسم "کو لغو قرار دیا جاۓ گا اور  اگر شوہر نے معاہدے کی مدت کے دوران کبھی کوئی چوری کی ہوگی تو اس کی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوجاۓ گی،جس کا حکم یہ ہے کہ شوہر کی جانب سے چوری کیے جانے کے وقت سے لے کر مکمل تین ماہواریاں گزرنے تک اگر شوہر نے  بیوی سےرجوع کرلیا تو  نکاح برقرار رہے گا اور تجدیدِ نکاح کی ضرورت نہیں ہوگی،لیکن اگر شوہر نے اس دوران رجوع نہیں کیا اور عدت (مکمل تین ما ہواریاں)گزرگئیں تو نکاح ختم ہوجاۓ گا اور عورت اپنی مرضی سے دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی، اس کے بعد اگر دونوں باہمی رضامندی سے  دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ باقاعدہ معتبرگواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرکے از سرِ نو نکاح کرنا ضروری ہوگا اور بغیر گواہوں کے نکاح  بالکل درست نہیں ہوگا۔ اگر شوہر نے اس کے علاوہ کوئی طلاق نہیں دی ہو تو رجوع کرلینے یا تجدیدِ نکاح کی صورت میں شوہر کو آئندہ  دو طلاقوں کا حق ہوگا۔ اور  اگر شوہر نے معاہدے کی مدت کے دوران کبھی کوئی چوری نہیں  کی(جیساکہ سوال میں درج ہے) تو اس کی بیوی پر کوئی  طلاق واقع نہیں ہوئی ،نیزبیوی کےشک کاکوئی اعتبارنہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي حاشية للخير الرملي عن جامع الفصولين أنه ذكر كلاما بالفارسية معناه إن فعل كذا تجري كلمة الشرع بيني وبينك ينبغي أن يصح اليمين على الطلاق لأنه متعارف بينهم فيه. اهـ. قلت: لكن قال في [نور العين] الظاهر أنه لا يصح اليمين لما في البزازية من كتاب ألفاظ الكفر: إنه قد اشتهر في رساتيق شروان أن من قال ‌جعلت ‌كلما أو علي كلما أنه طلاق ثلاث معلق، وهذا باطل ومن هذيانات العوام اهـ."

(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج:3، ص:247، ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما،ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين."

(کتاب الطلاق، الباب الرابع فی الطلاق بالشرط، الفصل الأول في ‌ألفاظ ‌الشرط، ج:1، ص:415، ط:رشیدیة)

وفیہ أیضاً:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(کتاب الطلاق، الباب الرابع فی الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ج:1، ص:420، ط:رشيدية)

فتح القدیر میں ہے:

"ولو دخلت على نفس التزوج بأن قال: كلما تزوجت امرأة فهي طالق يحنث بكل مرة وإن كان بعد زوج آخر) لأن انعقادها باعتبار ما يملك عليها من الطلاق بالتزوج وذلك غير محصور."

(كتاب الطلاق، ‌‌باب الأيمان في الطلاق،ج:4، ص:124، ط:دارالفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144504101307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں