بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کل مال میں وصیت کا حکم


سوال

ہمارے پڑوس میں ایک شخص   رہتا تھا  ، جسے ہم  بچپن   سے دیکھ رہے تھے ، ان سے  ملنے جلنے  بھی کوئی  نہیں آتا تھا ، غرض  ان کا  کوئی  رشتہ دار  وارث  بھی نہیں تھے ،  ان کے والد کا انتقال  20 سال پہلے   ہو گیا تھا ، اور والدہ کا انتقا ل 4 سال پہلے ہوا  ، اس  پڑوسی  نے کچھ عرصہ  پہلے   ایک وصیت  لکھی  تھی ، جس  کی کاپی  سوال نامہ میں منسلک ہے کہ اگر  میری منہ بولی بہن  یا اس  کے  بیٹے  یا کسی  تیسرے  شخص  نے میری تجہیز و تکفین  پر خرچہ کیا  تو میرا یہ ملکیتی گھر  اس کا ہوگا  اور اسے ہر قسم کے تصرف  کا حق ہوگا ،اس کے انتقال کے بعد تمام  کاروائی  تجہیز وتکفین   میں نے کی  تو ان کی وصیت کے مطابق  مذکورہ گھر  میرا ہوگا ؟ 

وضاحت :

مذکورہ  شخص  کے انتقال کے وقت  ان کی میت  11 دن تک چھیپا کے پاس رکھی رہی  ، کوئی  پوچھنے نہیں آیا  ،تجہیز وتکفین  کے بعد ہم نے بھی  ہر ذرائع سے  اس کے رشتہ داروں   سے متعلق  معلومات  کی ،کچھ  پتہ  نہیں چلا  ۔

جواب

 واضح رہے کہ    اگر  میت   بالغ  ہو  اور اس کا انتقال ہوجائے  اور اس کے قریب یا دور کا کوئی وارث نہ ہو ، تو  اس کے سارے  مال کا مستحق وہ ہوگا جس کے لیے  اس نے   وصیت  لکھی ہو  ، لہذا صورت مسئولہ میں سائل کا بیان  اگر  واقعۃصحیح اور درست   ہے،اور مرحوم کا کوئی قریبی یا دور کا  وارث حیات نہیں ہے  ،تو اس صورت میں مرحوم کی وصیت کے مطابق   سائل    اس مکان کا مستحق ہوگا ۔، لیکن اگر کوئی وارث قریب یا بعید کا حیات ہو تو پھر وصیت ایک تہائی ملکیت میں نافذ ہوگی ، باقی دو تہائی ملکیت ورثاء کو ملے گی۔

فتاوی شامي ميں هے :

والمستحقون للتركة عشرة أصناف مرتبة كما أفاده بقوله: (فيبدأ بذوي الفروض) أي السهام المقدرة وهم اثنا عشر من النسب:ثلاثة من الرجال، وسبعة من النساء، واثنان من التسبب وهما الزوجان (ثم بالعصبات) أل للجنس فيستوي فيه الواحد وجمعه للازدواج (النسبية) لانها أقوى (ثم بالمعتق) لو أنثى وهو العصبة السببية (ثم عصبته الذكور) لانه ليس للنساء من الولاء إلا ما اعتقن(ثم الرد) على ذوي الفروض النسبية بقدر حقوقهم (ثم ذوي الارحام ثم بعدهم مولى الموالاة) كما مر في كتاب الولاء، وله الباقي بعد فرض أحد الزوجين.ذكره السيد (ثم المقر له بنسب) على غيره(لم يثبت) فلو ثبت بأن صدقه المقر عليه أو أقر بمثل إقراره أوشهد رجل آخر ثبت نسبه حقيقة وزاحم الورثة وإن رجع المقر، وكذا لو صدقه المقر له قبل رجوعه، وتمامه في شروح السراجية سيما روح الشروح، وقد لخصته فيما علقته عليها (ثم) بعدهم (الموصى له بما زاد على الثلث) ولوبالكل، وإنما قدم عليه المقر له لانه نوع قرابة، بخلاف الموصى له (ثم) يوضع (في بيت المال) لا إرثا بل فيئا للمسلمين۔

كتاب الفرائض ، ص: 762،761،ط:دار الكتب العلمية

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100650

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں