میری شادی 2005 میں ہوئی، 2014 میں ہم میاں بیوی میں جھگڑا ہوا تو میں نے اپنی بیوی کو اُس کی بڑی بہن کی موجودگی میں دو طلاقیں دیں اور کچھ دنوں بعد اپنی بیوی سے رجوع کر لیا تھا۔ 2019 جنوری کی 21 تاریخ کو ہم میاں بیوی میں جھگڑا ہوا ،میری بیوی ناراض ہو کر اپنے میکے چلی گئی ،یکم فروری 2019 کو میرے ابو ہماری صلح کرانے کے لیے میرے سسرال گئے لیکن میرے سسرال والوں نے صلح سے انکار کر دیا ،پھر میں خاندان کے بڑوں کو اٹھا کر کے اپنے سسرال لے کر جاتا رہا کہ ہم میاں بیوی میں صلح ہوسکے۔ اُس وقت میرے دو بیٹے بڑے بیٹے کی عمر 9 سال تھی اور چھوٹے کی عمر 2019 میں تقریباً 5 سال تھی لیکن میرے سسرال والے ہم میاں بیوی کی صلح کرانے پر بالکل تیار نہ ہوئے، میں نے اپنی کوشش جاری رکھیں ،میں پھر اپنے خاندان کے بڑوں کا جرگہ اپنے سسرال لے کر جاتا رہا، ہر وفعہ میرے سسرال والے نا جائز شرطیں رکھ دیتے جو بالکل مجھے قبول نہ تھیں جس وجہ سے ہم میاں بیوی میں صلح نہیں ہو پا رہی تھی ۔
2019 ستمبر کی 27 تاریخ کو میری بیوی نے مجھ پر خلع کا کیس دائر کر دیا اُس کے بعد ہم نے صلح کی کوششیں اور تیز کردیں ،میں خاندان کے بڑوں کا جرگہ لے کر اپنے سسرال گیا میں نے اپنے سسرال والوں پر واضح کیا جو فیصلہ کرنا ہے گھر میں بیٹھ کر کریں ۔ہمارا مسئلہ عدالت میں کبھی بھی حل نہیں ہو سکتا۔ آپ لوگ گھر کی بات گھر بیٹھ کر حل کریں، عدالت ہمارے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اور خراب کر دے گی،بے شک آپ اپنی مرضی کا مفتی صاحب بلائیں گھر بیٹھ کر اُن کے سامنے مسئلہ حل کر لیتے ہیں۔ لیکن میرے سسرال والوں نے ہماری بات نہ مانی اور 2018 میں نومبر کی 13 تاریخ کو عدالت سے یکطرفہ خلع لے لی۔اس کے دو مہینے بعد میں صلح کی کوشش کرتا رہا۔ عدالت میں اس لیے پیش نہیں ہوا کہ عدالت میں صرف مردوں کی تذلیل کی جاتی ہے اور عورتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ،اب میں پھر صلح کرنا چاہتا ہوں ۔
میں نے اپنے سسرال والوں سے بات کی تو وہ کہتے ہیں ،تمھاری طرف سے تین طلاقیں ہو چکی میں اب کچھ نہیں ہو سکتا ہے ۔ میں نے اُن کو بتایا کہ عدالت نے آپ کو خلع دی ہے اور کہا ہے کہ تجدید نکاح ہو سکتاہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ واضح لکھا ہے کہ آپ کو خلع دی جاتی ہے تو پھر تیسری طلاق میرے کھاتے میں کس طرح پڑگئی ۔ نہ میں عدالت پیش ہوا اور نہ ہی یونین کونسل میں طلاق نامے پر دستخط کیے ،نہ یونین کونسل میں پیش ہوا ۔ نہ میں طلاق دینا چاہتا ہوں اور نہ ہی میں نے طلاق دی اور نہ بھی میں خلع کے حق میں تھا۔ اسلام اور شرعی قانون مجھے اس مسئلے کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں۔ قرآن اور احادیث کی روشنی میں جواب دیں ۔
صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دی تھیں اور ان دو طلاقوں کے بعد اگر عدت کے اندر رجوع کرلیا تھا تو اس سے سائل کا نکاح برقرار تھا۔اور آئندہ کے لیے سائل کو ایک طلاق کا حق حاصل تھا۔
سائل کی بیوی نے جب عدالت میں خلع کے لیے درخواست دائر کی اور سائل نہ عدالت میں پیش ہوا ہے اور نہ ہی سائل نے عدالتی فیصلے پر دستخط کیے ہیں نہ رضامندی کا اظہار کیا ہے تو اس سے سائل کی بیوی پر خلع واقع نہیں ہوگی، باہمی طور پر نکاح برقرار ہے،اس لیے کہ خلع بھی دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس کے لیے جانبین یعنی میاں بیوی کی رضا مندی ضروری ہے، اگر عدالت شوہر کی رضامندی (خواہ زبانی ہو یا تحریری) کے ساتھ خلع کا فیصلہ کرتی ہے یا فیصلہ ہونے کے بعد شوہر اس خلع کے فیصلہ پر قولاً یا فعلاً رضامندی کا اظہار کرتا ہے ،تو شرعاً ایسا خلع معتبر ہوتا ہے، لیکن اگر عدالت شوہر کی رضا مندی کے بغیر خلع کا فیصلہ دے دے اور فیصلہ ہونے کے بعد بھی شوہر اس پر (قولاً یا فعلاً) رضامندی کا اظہار نہ کرے تو شرعاً یہ خلع معتبر نہیں ہوتا۔لہذا سوال میں مذکور طریقے کے مطابق اگر سائل کی بیوی نے یک طرفہ عدالتی خلع حاصل کیا ہے تو اس سے کوئی طلاق یا جدائی واقع نہیں ہوئی اور اس خلع کی بنیاد پر سائل کی بیوی کے لیے دوسرا نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".
(كتاب الطلاق، باب الخلع، 3/ 441 ، ط: سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول".
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الطلاق، 3/ 145، ط:دار الكتب العلمية)
مبسوط سرخسي میں ہے:
"و نكاح المنكوحة لا يحله أحد من أهل الأديان."
(کتاب المبسوط،الجزءالعاشر،ج: 10،ص:،163،ط:دارالفکر،بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144408100918
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن