بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خلفاءِ راشدین سے عقیدت کے اظہار کے لیے نام کے ساتھ صدیقی، فاروقی، عثمانی یا علوی لکھنے کا حکم


سوال

بہت سے علماء   اپنے نام کے ساتھ چشتی نقشبندی سہروردی وغیرہ لکھتے ہیں۔ جب کہ اہلِ سنت کے علماء   حنفی  شافعی مالکی اور حنبلی لکھتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ صدیقی فاروقی عثمانی اور علوی لکھتے ہیں۔  کیا کوئی شخص اپنے نام کے ساتھ خلفاءِ راشدین سے عقیدت کے اظہار  کے لیے صدیقی،  فاروقی ،  عثمانی یا علوی لکھ سکتا ہے؟ جس طرح بعض اہلِ  حدیث علماء  اپنے نام کے ساتھ ’’محمدی‘‘ لکھتے ہیں۔ حضرت محمد ﷺ اور خلفائے راشدہ کا قبیلہ قریش تھا۔  صدیقی، فاروقی یا عثمانی لکھنے سے نسب تو نہیں بدلے گا؟

جواب

عقیدت و محبت کے اظہار کے لیے کسی بزرگ کی  طرف نسبت کرنے   میں تو کوئی حرج نہیں ہے،لیکن  عرف میں آج کل صدیقی  اس کو کہتے ہیں جو  حضرت ابوبکر  صدیق ضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد میں سے ہو ، فاروقی اس کو کہتے ہیں جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی  عنہ کی اولاد میں سے ہو،عثمانی اس کو کہتے ہیں جو حضرت عثمان  رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد میں سے ہو، علوی اس کو کہتے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد میں سے ہو  ،پس جو ان حضرات  کی اولاد میں سے ہو ان کے لیے تو  نسبت کرنا درست ہے،البتہ جو ان حضرات کی اولاد میں سے نہ ہو ان کے لیے  نسبت کرنے اور اپنے ساتھ لکھنے میں چوں کہ تلبیس و تدلیس یعنی دھوکہ دہی کا اندیشہ ہے،سننے والے یہی  سمجھیں گے کہ موصوف  کو ان  بزرگوں  سے نسبی تعلق ہے ، اس لیے اس طرح کی نسبت نہ رکھنے والے کے لیے یہ نسبتیں لگانا  جائز نہیں ہے۔

کیوں کہ نسب میں تبدیلی کرنا یا دوسرے کو  یہ باور کرانا کہ وہ کسی اور نسب سے تعلق رکھتا ہے بڑا گناہ ہے،  نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : جو شخص اپنی نسبت اپنے والد کے علاوہ کی طرف کرے یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کا والد نہیں ہے تو جنت اس شخص پر حرام ہے،  دوسری حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: اپنے والد(کی طرف اپنی نسبت کرنے سے) اعراض نہ کرو، جس شخص  نے اپنے والد کی طرف نسبت کرنے سے بے رغبتی ظاہر  کی اس پر کفر کا اندیشہ ہے، ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو کوئی شخص  جان بوجھ کر اپنے والد کے علاوہ کی طرف اپنی  نسبت کا دعوی کرے  تو وہ کفر کے قریب پہنچ جاتا ہے اور جو کوئی اپنی نسبت ایسی قوم کی طرف کرے جس میں اس کا نسب نہ ہو تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔

البتہ نقشبندی،سہروردی ، چشتی،قادری،  کسی برادری کا نام نہیں بل کہ یہ تصوف کے چار سلسلوں کی طرف نسبت ہے اور  اسی طرح حنفی ، شافعی ،مالکی ، حنبلی کسی برادری کی طرف نسبت نہیں ہے بل کہ  یہ ائمہ اربعہ کے  فقہ  ماننے والوں کو کہا جاتا ہیں  لہذا   ہر وہ شخص جو  ان کے مسالک  اور سلسلوں سے اتفاق رکھتا ہو وہ اپنے  آپ    کو  ان نسبتوں سے متصف کرسکتے ہیں۔

قرآن کریم اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:

"{ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا." (5)}سورة الاحزاب)

ترجمہ:"تم ان کو اُن کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرویہ اللہ تعالی کے نزدیک ماستی کی بات ہے،اور اگر تم اُن کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تو تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا  لیکن ہاں جو دل سے ارادہ کرکے کرو،اور اللہ غفور رحیم ہے۔"(بیان القرآن ،سورۃ الاحزاب،ایۃ :5)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"وظاهر الآية حرمة تعمد ‌دعوة ‌الإنسان لغير أبيه، ولعل ذلك فيما إذا كانت الدعوة على الوجه الذي كان في الجاهلية، وأما إذا لم تكن كذلك كما يقول الكبير للصغير على سبيل التحنن والشفقة يا ابني وكثيرا ما يقع ذلك فالظاهر عدم الحرمة".

(سورة الاحزاب، اية :6،ج:11،ص:147،ط:دارالكتب العلمية)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله: {ادعوهم لآبائهم} في شأن زيد بن حارثة، وقد قتل في يوم مؤتة سنة ثمان، وأيضا ففي صحيح مسلم، من حديث أبي عوانة الوضاح بن عبد الله اليشكري، عن الجعد أبي عثمان البصري، عن أنس بن مالك، رضي الله عنه، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يا بني". ورواه أبو داود والترمذي .وقوله: {فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم} : أمر [الله] تعالى برد أنساب الأدعياء إلى آبائهم، إن عرفوا، فإن لم يعرفوا  آباءهم، فهم إخوانهم في الدين ومواليهم، أي: عوضا عما فاتهم من النسب".

(سورة الاحزاب 5،ج:6،ص:378،ط:دار الطيبة للنشر و التوزيع)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن سعد وأبى بكرة كلاهما يقول: سمعته أذناي ووعاه قلبي محمدًا صلى الله عليه وسلم يقول: «من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام »". 

( كتاب الإيمان، باب بيان إيمان من رغب الخ ،ج؛1،ص:58 ط:قديمي)

مرقات المفاتیح میں ہے:

 "وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (لا ترغبوا): أي: لاتعرضوا (عن آبائكم) : أي: عن الانتماء إليهم (فمن رغب عن أبيه): أي: وانتسب إلى غيره (فقد كفر): أي قارب الكفر، أو يخشى عليه الكفر".

(کتاب الطلاق، باب اللعان ج:5 ،ص:2170 ،طدار الفكر)

صحیح البخاری میں ہے:

"عن أبي ذر رضي الله عنه أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ليس من رجل ادعى لغير أبيه وهو يعلمه إلا كفر ومن ادعى قومًا ليس له فيهم نسب فليتبوأ مقعده من النار".

(صحيح البخاري ،ج:4،ص:180،رقم3508،ط:دارالطوق النجاة

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال[۲۲۵۸]: مسلمانوں میں مختلف قوموں کے لوگ اپنے نام کے ساتھ’’ صدیقی‘‘ نسبت ساتھ اپنے کو منسوب کرتے ہیں، جب کہ  یہ حقیقی نسبت ان کے ساتھ نہیں ہے، محض تفاؤلا یاکسی اور مقصد کے پیش نظر  ایسی نسبت اپنے ساتھ جوڑتے ہیں ،تو مذکور نسبت کا اپنے نام کے ساتھ جوڑ ناصحیح ہے  یا نہیں؟

الجواب حامداًومصلياً:

عرف عام میں آج کل ’’صد یقی‘‘ اس کو کہتے ہیں جو خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد میں ہو پس جو شخص  ان کی اولاد میں نہ ہو وہ اپنے نام کے ساتھ "صدیقی "لکھتا ہے تو یہ درست نہیں، اس  سے دھو کا ہوتا ہے اور نسبت بدلنے والے کے لئے حدیث شریف میں سخت وعید آئی ہے ، اس کو پر ہیز لازم ہے۔"

(کتاب   الطلاق،باب ثبوت النسب،ج:13،ص:565،ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101663

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں