مجھے یہ پوچھنا تھا کے مجھے بار بار کفریہ الفاظ کا وہم ہوتا ہے، مطلب میں کچھ بھی بولوں تو اس میں یہ لگتا ہے کہ نعوذ باللہ کچھ غلط کہہ دیا۔ نیز یہ بھی پوچھنا تھا کہ کفریہ الفاظ کی وجہ سے تجدید نکاح کرنا ہوتو کیا عورت خود دو شرعی گواہوں کے سامنے شوہر کی غیرموجودگی میں ایجاب و قبول کر سکتی ہے ؟آپ میرے سوال کا جواب جلدی دیجئے گا کہ کسی بات کا دل میں شک ہو تو کیا اس سے بھی کفر لازم آتا ہے ؟ يا زبان سے کہے تب ہوتا ہے؟
واضح رہے کہ جب تک کوئی شخص اپنے ارادے/ اختیار سے زبان سے کلماتِ کفریہ ادانہ کرےوہ دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، لہذا بصورتِ مسئولہ آپ کو صرف کفریہ کلمات کا جو وہم یا شک ہورہاہے، اُس کی وجہ سے کفرلازم نہیں آئے گا اور نہ ہی آپ کو ایمان اور نکاح کی تجدید کی ضرورت ہے،آپ کو چاہیےکہ اِن وسوسوں اور شکوک و شبہات کی طرف توجہ نہ دیں بلکہ نماز اور ذکر و اذکار کا اہتمام کریں ، گناہوں سے اجتناب کریں اور” رَّبِّ أَعُوْذُبِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَأَعُوْذُ بِكَ رَبِّ أَنْ یَّحْضُرُوْنِ“ کا ورد کیا کریں۔مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
کفریہ اور گستاخانہ خیالات اور وساوس کا آنا اور اس کا علاج
باقی اگر کوئی شخص حتمی و یقینی طور پر کفر کا ارتکاب کرے تو تجدیدِا یمان و تجدیدِ نکاح ضروری ہے، تجدیدِ نکاح میں ضروری یہ ہے کہ نئے مہر مقرر کر کے دو شرعی گواہان کی موجودگی میں مرد و عورت ایجاب و قبول کرلیں اور اگر مرد و عورت میں سے کوئی بذات خود موجود نہ ہو تو اُس غیرموجود کی اجازت سے کوئی تیسرا شخص (جو گواہان کے علاوہ ہو) بطورِ وکیل ایجاب و قبول کرے،لہذا تجدیدِ نکاح میں مرد کی غیرموجود گی اگر اُس کی طرف سے کوئی وکیل ایجاب و قبول نہ کرے تو فقط عورت کا ایجاب و قبول شرعاً غیرمعتبر ہے۔
شرح المجلۃ میں ہے:
"اليقين لا يزول بالشك،اليقين طمانينة القلب علی حقيقة الشيئ والشك استواء طرفي الشيئ وهو الوقوف بين الشيئين بحيث لا يميل القلب الی احدهما ."
(رقم الماده: 4، ج:1، ص:20، ط:دار الجیل)
فتاوی شامی میں ہے:
"أن ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح."
(كتاب الجهاد، باب المرتد، مطلب الإسلام يكون بالفعل كالصلاة بجماعة، ج4، ص230، ط:سعيد)
فقط والله تعالى اعلم بالصواب
فتوی نمبر : 144610102204
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن