بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کفریہ کلمات کہنےسےایمان اور نکاح کا حکم


سوال

ایک شادی شدہ شخص ہے، جو انٹرنیٹ پر الحادی نیٹورکس کا شکار ہوگیا، گستاخانہ اور کفریہ مواد پڑھنے کی لت لگ گئی، پھر توبہ بھی کر لیتا، مگر پھر دوبارہ پہنچ جاتا، کبھی کبھی خود بھی گستاخانہ اور کفریہ کمنٹس لکھ دیتا، جو باتیں پڑھتا یا لکھتا، وہ زبان سے تو کبھی نہیں بولتا، کیوں کہ دل سے کبھی قبول نہیں کیا، دل میں کچھ ایمان رکھتا تھا، مگر بعد میں توبہ کر لینے کے فریب میں دوبارہ اس قبیح فعل میں مبتلا ہو جاتا، اسی اثنا میں ۳-۴ سال گزر گئے، اب توبہ کر کے کنارہ کشی تو اختیار کر چکا ہے اور اپنے کئے پر نادم بھی بہت ہے، مگر اب کشمکش میں مبتلا ہے کہ

1۔کیا نکاح کی بھی تجدید کی ضرورت ہے؟

2۔اگر ضرورت ہے تو اس عرصے میں جو بیوی سے تعلقات رکھے ،ان کا کیا کیاجاۓ (دو بچوں کی پیدائش بھی اس عرصے میں ہی ہوئی)؟

3۔تجدیدِ نکاح کا طریقۂ کار کیا ہے؟

جواب

1،2۔واضح رہےکہ اپنے ارادے/ اختیار سے کلماتِ  کفریہ  ادا کرنے   سے انسان دائرۂ  اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، خواہ وہ کلمات غصے میں یا مذاق میں کہے ہوں، یا ان کے مطابق عقیدہ نہ ہو، لیکن کلمات ِکفر ہوں۔

اگر ایسا کہنے والا مرد ہو تو اس کا نکاح ختم ہو جاتاہے اور اس کے ذمہ لازم ہوتاہے کہ فورًا اپنے اسلام اورنکاح کی تجدید کرے، اس لیے کہ ان کلمات سے توبہ کرلینے  اور دوبارہ سے دائرۂ  اسلام  میں داخل ہونے کے بعد  نکاح کا اعادہ لازم ہوجاتا ہے،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کابغیرتجدیدِ نکاح کےاپنی بیوی کےساتھ ازدواجی تعلق قائم کرناناجائزاور حرام  تھا ، اس سے ہم بستری کرنا زنا تھا، دونوں (میاں،بیوی)پرساتھ رہنےکی وجہ سےخوب توبہ واستغفار کرنالازم ہے،البتہ  تجدیدِ نکاح کیےبغیراگر مذکورہ شخص نےاپنی بیوی کےساتھ  اگر حلال سمجھ کر ازدواجی تعلق قائم کیا ہے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کا نسب اس شخص  سے ثابت ہوگا ۔

3۔تجدیدِ نکاح کا طریقہ یہ ہے کہ خطبۂ نکاح پڑھنے کے بعددو مسلمان عاقل بالغ مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ ایجاب و قبول کیا جائے۔

"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر "میں ہے:

"فما يكون كفرًا بالاتفاق يوجب إحباط العمل كما في المرتد وتلزم إعادة الحج إن كان قد حجّ ويكون وطؤه حينئذ مع امرأته زنا والولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد الزنا، ثم إن أتى بكلمة الشهادة على وجه العادة لم ينفعه ما لم يرجع عما قاله؛ لأنه بالإتيان بكلمة الشهادة لايرتفع الكفر، وما كان في كونه كفرًا اختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطًا، وما كان خطأً من الألفاظ لايوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولايؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، هذا إذا تكلم الزوج، فإن تكلمت الزوجة ففيه اختلاف في إفساد النكاح، وعامة علماء بخارى على إفساده لكن يجبر على النكاح ولو بدينار وهذا بغير الطلاق".

(باب المرتد، 687/1، ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لايعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع".
قال ابن عابدین رحمه الله:

" قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ"

(باب المرتد، 224/4، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

" إلا أن یقال: إن انعقاد الفراش بنفس العقد إنما هو بالنسبة إلی النسب؛ لأنه یحتاط في إثباته إحیاء للولد".

(باب العدة، 517/3،  ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101329

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں