بار بار کفر یہ وساوس دل میں آ رہے تھے ان سے جان چھڑوانے کے لیے دل میں کہا کہ چاہے اسلام سچا دین ہو ،یا سچا نہ ہو، میں اسلام نہیں چھوڑوں گا،مروں گا تو مسلمان مروں گا، کیا اس بات سے انسان کافر تو نہیں ہوجاتا؟ اگرچہ دل میں پکا یقین ہو کہ :اسلام سچا دین ہے، بس شیطان کو جواب دے کر اس کا منہ بند کرنے کے لیے۔
اگر کسی شخص کو غیر اختیاری طور پر ایسے خیالات اور وساوس آتے ہوں تو وہ ان سے پریشان نہ ہو۔ ان وساوس اور خیالات کا علاج یہ ہے کہ ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیا جائے، اور اپنے اختیار سے اپنے دل و دماغ میں کفریہ وساوس اور خیالات کو جگہ نہ دی جائے، جو شخص کفریہ خیالات لائے اور انہیں طول دے یہ ایمان کے لیے خطرہ کی بات ہے، البتہ جب تک ایسی کفریہ باتیں خیالات اور وساوس تک محدود ہوں گی، اور زبان پر اس کی ادائی نہ ہو تواس پر کفر کا حکم نہیں لگے گا۔
غیر اختیاری وسوسہ آنا اور اسے برا سمجھنا ایمان کی علامت ہے، حدیثِ مبارک میں آتا ہے: " حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا، آپ ﷺ نے فرمایا کیا واقعی تم اسی طرح پاتے ہو؟ (یعنی گناہ سمجھتے ہو) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا یہ تو واضح ایمان ہے۔
" عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ، قَالَ: «أَو قد وجدتموه»؟ قَالُوا: نعم. قَالَ: «ذَاك صَرِيح الْإِيمَان» . رَوَاهُ مُسلم". (مشكاة المصابيح (1/ 26)
ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صحابہ کے اس جملہ "ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا" کا مطلب یہ ہے کہ ”ہم اپنے دلوں میں بری چیزیں پاتے ہیں، مثلاً: اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ اور وہ کیسا ہے؟ اور کس چیز سے ہے؟ اور اس طرح کی اور چیزیں کہ جن کا بیان کرنا بھی مشکل ہے، اس لیے کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ قبیح باتیں ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے کہ ہم اس پر اعتقاد رکھیں، بلکہ ہم جانتے ہیں اللہ قدیم ہے ازل سے ہے،ہر چیز کا خالق ہے، مخلوق نہیں ہے، تو ایسے خیالات جو ہمارے دل میں آتے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ تو آپ ﷺ نے یہ جواب دیا کہ یہ تو صریح ایمان ہے، اس لیے تم اس وساوس کو دل میں پانے کے بعد جھڑک دیتے ہو، اور اس کو برا سمجھتے ہو،تو یہ تمہارے ایمان کی علامت ہے۔
لہذا ان خیالات اور وسوسوں سے پریشان نہ ہوں ، اور ان کا علاج یہ ہے کہ ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیا جائے، بعض علماء نے وساوس میں مبتلا اشخاص کی تسلی و تسکین کے لیے کہا ہے کہ جس طرح چور اُس گھر میں جاتا ہے جہاں کچھ مال ومتاع ہوتا ہے، اسی طرح جس دل میں ایمان ہوتا ہے شیطان وہاں آکر وساوس ڈالتا ہے۔
"وقيل: المعنى أن الوسوسة أمارة الإيمان؛ لأن اللص لايدخل البيت الخالي". (مرقاة المفاتيح 1/ 137)
اس لیے ان وساوس کو دل میں جگہ نہ دی جائے، ان کے مقتضی پر عمل یا لوگوں کے سامنے ان کا اظہار نہ ہو، بلکہ ان کا خیال جھڑک کر ذکر اللہ کی کثرت کا اہتمام کرنا چاہیے۔
خود ایک اور حدیثِ مبارک میں آپ ﷺ نے اس کا علاج بتایا ہے، ملاحظہ ہو:
"ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے تو کہتا ہے کہ اس طرح کس نے پیدا کیا؟ اس طرح کس نے پیدا کیا؟ یہاں تک کہ وہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ تو جب وہ یہاں تک پہنچے تو اللہ سے پناہ مانگو اور اس وسوسہ سے اپنے آپ کو روک لو۔
ایک اورحدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا کہ مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا؟ تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ تو جو آدمی اس طرح کا کوئی وسوسہ اپنے دل میں پائے تو وہ کہے میں اللہ پر ایمان لایا، ایک روایت میں یہ اضافہ ہے، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔
"وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ: مَنْ خلق كَذَا؟ مَنْ خَلَقَ كَذَا؟ حَتَّى يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ؟ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ وَلْيَنْتَهِ".
"وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ: هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ: آمَنت بِاللَّه وَرُسُله".(مشكاة المصابيح (1/ 26)
بہرحال سائل کو چاہیے کہ وساوس کی طرف دھیان نہ دے، مذکورہ صورت میں کفر لازم نہیں آیا، باقی ان وسوسوں کے علاج کے لیے مذکورہ نسخہ نبوی ﷺ پر عمل کیا جائے، اور ساتھ ساتھ یہ اعمال کریں:
(1) أعُوذُ بِالله (2) اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه کا ورد کرے۔ (3) هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم (4) نیز رَّبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ کا کثرت سے ورد بھی ہر طرح کے شیطانی شکوک ووساوس کے دور کرنے میں مفید ہے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204200567
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن