بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کفریہ وسوسہ آنا اور اس کا علاج


سوال

 مفتی صاحب مجھے بہت زیادہ وسوسے اور برے خیالات آتے ہیں ،اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق دین اسلام کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق میرے دل میں یہ وسوسہ آتا ہے کہ معاذ اللہ اللہ کی ذات پتہ نہیں موجود بھی ہے کہ نہیں؟ اللہ معاف فرمائے اور اس طرح اور بھی بہت زیادہ خطرناک قسم کے خیالات آتے ہیں ،پھر اس سے مجھے بہت ٹینشن ہوتی ہے۔اب میں مدرسے میں زیادہ تر ہوتا ہوں  اور کوشش کرتا ہوں کہ یہ وسوسہ پھر نہ آۓ لیکن مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں میرا ایمان ختم تو نہیں ہوا ہے ابھی یہ ٹینشن ہوتی ہے ۔ جب مجھے وسوسہ آتا تھا اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق یا پھر روز قیامت کے متعلق توپھر میں اس کے پیچھے لگا ہوتا تھا سوچتا تھا؛ اس لیے فکر ہے کہ ایمان ختم نہ ہو گیا ہو ؟

جواب

واضح رہے کہ غیر اختیاری وسوسہ آنا اور  اسے برا سمجھنا ایمان کی علامت ہے، حضرت ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا، آپ ﷺ نے فرمایا کیا واقعی تم اسی طرح پاتے ہو؟ (یعنی گناہ سمجھتے ہو) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا یہ تو واضح ایمان ہے۔

ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صحابہ کے اس جملہ  "ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا" کا مطلب یہ ہے کہ ”ہم اپنے دلوں میں بری چیزیں پاتے ہیں، مثلاً:  اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ اور وہ کیسا ہے؟ اور کس چیز سے ہے؟ اور اس طرح کی اور چیزیں کہ جن کا بیان کرنا بھی مشکل ہے، اس لیے کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ قبیح باتیں ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے کہ ہم اس پر اعتقاد رکھیں، بلکہ ہم جانتے ہیں اللہ قدیم ہے ازل سے ہے،ہر چیز کا خالق ہے، مخلوق نہیں ہے، تو ایسے خیالات جو ہمارے دل میں آتے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ تو آپ ﷺ نے یہ جواب دیا کہ یہ تو صریح ایمان ہے، اس لیے تم اس وساوس کو دل میں پانے کے بعد جھڑک دیتے ہو، اور اس کو برا سمجھتے ہو،تو یہ تمہارے ایمان کی علامت ہے؛لہذا ان خیالات اور وسوسوں سے پریشان نہ ہوں ، اور ان کا علاج یہ ہے کہ ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیا جائے،ان خیالات کو بالکل نظر انداز کرے اور ذہن کو دوسرے کسی اچھے خیال میں مصروف کردے ،وساوس سے بچنے کی دعاؤں میں مصروف ہوجائے،   بعض علماء  نے وساوس میں مبتلا اشخاص کی تسلی و تسکین کے لیے کہا ہے کہ جس طرح  چور اُس گھر میں جاتا ہے جہاں کچھ مال ومتاع ہوتا ہے، اسی طرح جس دل میں ایمان ہوتا ہے شیطان وہاں آکر وساوس ڈالتا ہے۔ایک اور حدیث میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا علاج بیان فرمایا ہے :

 "ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے تو کہتا ہے کہ اس طرح کس نے پیدا کیا؟ اس طرح کس نے پیدا کیا؟  یہاں تک کہ وہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ تو جب وہ یہاں تک پہنچے تو اللہ سے پناہ مانگو اور اس وسوسہ سے اپنے آپ کو روک لو۔
ایک اورحدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا کہ مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا؟ تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ تو جو آدمی اس طرح کا کوئی وسوسہ اپنے دل میں پائے تو وہ کہے میں اللہ پر ایمان لایا، ایک روایت میں یہ اضافہ ہے، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔

لہذا ان وسوسوں کے علاج کے لیے مذکورہ نسخہ نبوی ﷺ پر عمل کیا جائے، اور ساتھ ساتھ  یہ  اعمال کریں:

(1)  أعُوذُ بِالله (2) اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه کا  ورد کرے۔ (3)  هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم  (4) نیز  رَّبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِکا کثرت سے ورد بھی ہر طرح کے شیطانی شکوک ووساوس کے دور کرنے میں مفید ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما ‌يتعاظم ‌أحدنا أن يتكلم به. قال: «أو قد وجدتموه» قالوا: نعم. قال: «ذاك صريح الإيمان» . رواه مسلم."

(کتاب الایمان ،باب الوسوسۃ،ج:۱،ص:۲۶،المکتب الاسلامی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"( «في أنفسنا ما ‌يتعاظم ‌أحدنا أن يتكلم به» ) أي: نجد في قلوبنا أشياء قبيحة نحو: من خلق الله؟ وكيف هو؟ ومن أي شيء؟ وما أشبه ذلك مما يتعاظم النطق به لعلمنا أنه قبيح لا يليق شيء منها أن نعتقده، ونعلم أنه قديم، خالق الأشياء، غير مخلوق، فما حكم جريان ذلك في خواطرنا؟وتعاظم: تفاعل بمعنى المبالغة؛ لأن زيادة المبنى لزيادة المعنى، فإن الفعل الواحد إذا جرى بين اثنين يكون مزاولته أشق من مزاولته وحده، ولذا قيل: المفاعلة إذا لم تكن للمبالغة فهي للمبالغة أي: نستعظم غاية الاستعظام، وقوله: أحدنا؛ روي برفع الدال، ومعناه يجد أحدنا التكلم به عظيما لقبحه، ويجوز النصب على نزع الخافض أي: يعظم، ويشق التكلم به على أحدنا (قال: (أوقد وجدتموه) ؟ الهمزة للاستفهام التقريري، والواو المقرونة بها للعطف على مقدر أي: (حصل ذلك) ، وقد وجدتموه، والضمير لما يتعاظم أي: ذلك الخاطر في أنفسكم تقريرا وتأكيدا، فالوجدان بمعنى المصادفة، أو المعنى أحصل ذلك الخاطر القبيح، وعلمتم أن ذلك مذموم غير مرضي فالوجدان بمعنى العلم. (قالوا: نعم) . قال: (ذاك) : إشارة إلى مصدر وجد أي: وجدانكم قبح ذلك الخاطر، أو مصدر يتعاظم أي: علمكم بفساد تلك الوساوس، وامتناع نفوسكم، وتجافيها عن التفوه بها (صريح الإيمان) أي: خالصه يعني أنه أمارته الدالة صريحا على رسوخه في قلوبكم، وخلوصها من التشبيه، والتعطيل؛ لأن الكافر يصر على ما في قلبه من تشبيه الله سبحانه بالمخلوقات، ويعتقده حسنا، ومن استقبحها، وتعاظمها لعلمه بقبحها، وأنها لا تليق به تعالى كان مؤمنا حقا، وموقنا صدقا فلا تزعزعه شبهة، وإن قويت، ولا تحل عقد قلبه ريبة، وإن موهت، ولأن من كان إيمانه مشوبا يقبل الوسوسة، ولا يردها وقيل المعنى أن الوسوسة أمارة الإيمان؛ لأن اللص لا يدخل البيت الخالي، ولذا روي عن علي رضي الله عنه، وكرم الله وجهه: أن الصلاة التي لا وسوسة فيها إنما هي صلاة اليهود، والنصارى" (رواه مسلم)."

(کتاب الایمان،باب الوسوسۃ،ج:۱،ص:۱۳۶،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101534

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں