بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کفریہ وسوسوں کا آنا اور اس کا علاج


سوال

 جناب میں بہت پریشان ہو ں،خدا کی قسم میری  مدد کیجئے، 2/3سال سے وسوسوں اور خیالات اور برے تصورات کا شکار ہوں ، مجھے اسلام مقدس، اور ذات باری تعالٰی اور میرے آقا علیہ السلام اور قرآن  کے بارے میں غلط اور برے خیالات آتے  ہیں ،کبھی کبھی خودکشی کا سوچتا ہوں ، لیکن پھر جب خود کشی کے بارے میں وارد شدہ احادیث یاد  آ تے ہیں  تو پھر حیران ہوجا تا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں برے تصورات اور خاکہ العیاذ باللہ میں اپنے زندگی سے بہت تنگ ہوں اور آقا علیہ السلام کے بارے میں برے تصورات اور خاکہ میرا یہ ایمان ہیں کہ شیطان جو مجھے آقا علیہ السلام کے بارے میں تصورات دیتا ہے  یہ ہرگز میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاکہ نہیں ؛کیوں کہ میں نے  اپنے آقا کو دیکھا نہیں ہیں ،بسا اوقات یہ حالت بہت سخت پڑ جاتی ہے تو خواب یا خواب کے  قریب برے خیالات آتے ہیں اللہ کی قسم مجھے بولنے پر ڈر لگتا ہیں آخر ہمارا ہوگا کیا جس کی وجہ سے روٹی نہیں کھاسکتا اور اس بیماری کی وجہ میں نے کئی گنا ہوں کو چھوڑ دیا ہیں بڑے  گناہوں کو، الحمدللہ بولنے پر مجبور ہوں العیاذ باللہ ہر روز روتا ہوں کیا کروں مجھے گندے گندے تصاویر آتی ہیں ذہن میں اور لعین اس کو نام دیتا ہے میرے پیارے آقا صلی علیہ وسلم کا، ثم العیاذ باللہ بسا اوقات مجھے پتہ نہیں چلتا کہ یہ خیالات اختیاری یا غیر اختیاری ہیں اور جہاں  میرے پیارے آقا علیہ السلام کا نام آتا ہے  تو میں بے شمار درود بھیجتا ہوں لیکن دل میں تنگی محسوس ہوتا ہے  کہ تمہارا ایمان نہیں تم درود کیوں  پڑھتے ہوں، میں بسا اوقات مجھے پتہ نہیں العیاذ باللہ بولنے پر مجبور شہوت اختیاری یا غیر اختیاری ہوں اس پر روتا ہوں کیوں کہ اس دوران شیطان برے تصورات دیتاہے ، اللہ کی  خاطر میں کیا کروں بہت پریشان ہوں بسا اوقات ذکر حرکت میں آتا ہے  پتہ نہیں ہوتا ڈر کی وجہ سے ہوتا ہیں یا شیطان کے  برے تصورات کی وجہ سے، خدا کی قسم شیطان جو مجھے خیالات دیتا ہے یہ بلکل غلط خیالات ہیں ؛لیکن میرا قابو نہیں ہیں براہ کرم مجھے بتائیں  میں کیا کروں؟ جزاک اللّہ احسن الجزاء پریشان ہوں ، دن بدن کمزور ہو جاتا ہوں۔

جواب

واضح رہے کہ غیر اختیاری وسوسہ آنا اور  اسے برا سمجھنا ایمان کی علامت ہے، حضرت ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا، آپ ﷺ نے فرمایا کیا واقعی تم اسی طرح پاتے ہو؟ (یعنی گناہ سمجھتے ہو) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا یہ تو واضح ایمان ہے۔

ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صحابہ کے اس جملہ  "ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا" کا مطلب یہ ہے کہ ”ہم اپنے دلوں میں بری چیزیں پاتے ہیں، مثلاً:  اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ اور وہ کیسا ہے؟ اور کس چیز سے ہے؟ اور اس طرح کی اور چیزیں کہ جن کا بیان کرنا بھی مشکل ہے، اس لیے کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ قبیح باتیں ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے کہ ہم اس پر اعتقاد رکھیں، بلکہ ہم جانتے ہیں اللہ قدیم ہے ازل سے ہے،ہر چیز کا خالق ہے، مخلوق نہیں ہے، تو ایسے خیالات جو ہمارے دل میں آتے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ تو آپ ﷺ نے یہ جواب دیا کہ یہ تو صریح ایمان ہے، اس لیے تم اس وساوس کو دل میں پانے کے بعد جھڑک دیتے ہو، اور اس کو برا سمجھتے ہو،تو یہ تمہارے ایمان کی علامت ہے؛لہذا ان خیالات اور وسوسوں سے پریشان نہ ہوں ، اور ان کا علاج یہ ہے کہ ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیا جائے،   بعض علماء  نے وساوس میں مبتلا اشخاص کی تسلی و تسکین کے لیے کہا ہے کہ جس طرح  چور اُس گھر میں جاتا ہے جہاں کچھ مال ومتاع ہوتا ہے، اسی طرح جس دل میں ایمان ہوتا ہے شیطان وہاں آکر وساوس ڈالتا ہے۔ایک اور حدیث میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا علاج بیان فرمایا ہے :

 "ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے تو کہتا ہے کہ اس طرح کس نے پیدا کیا؟ اس طرح کس نے پیدا کیا؟  یہاں تک کہ وہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ تو جب وہ یہاں تک پہنچے تو اللہ سے پناہ مانگو اور اس وسوسہ سے اپنے آپ کو روک لو۔
ایک اورحدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا کہ مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا؟ تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ تو جو آدمی اس طرح کا کوئی وسوسہ اپنے دل میں پائے تو وہ کہے میں اللہ پر ایمان لایا، ایک روایت میں یہ اضافہ ہے، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔

لہذا ان وسوسوں کے علاج کے لیے مذکورہ نسخہ نبوی ﷺ پر عمل کیا جائے، اور ساتھ ساتھ  یہ  اعمال کریں:

(1)  أعُوذُ بِالله (2) اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه کا  ورد کرے۔ (3)  هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم  (4) نیز  رَّبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِکا کثرت سے ورد بھی ہر طرح کے شیطانی شکوک ووساوس کے دور کرنے میں مفید ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما ‌يتعاظم ‌أحدنا أن يتكلم به. قال: «أو قد وجدتموه» قالوا: نعم. قال: «ذاك صريح الإيمان» . رواه مسلم."

(کتاب الایمان ،باب الوسوسۃ،ج:۱،ص:۲۶،المکتب الاسلامی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"( «في أنفسنا ما ‌يتعاظم ‌أحدنا أن يتكلم به» ) أي: نجد في قلوبنا أشياء قبيحة نحو: من خلق الله؟ وكيف هو؟ ومن أي شيء؟ وما أشبه ذلك مما يتعاظم النطق به لعلمنا أنه قبيح لا يليق شيء منها أن نعتقده، ونعلم أنه قديم، خالق الأشياء، غير مخلوق، فما حكم جريان ذلك في خواطرنا؟وتعاظم: تفاعل بمعنى المبالغة؛ لأن زيادة المبنى لزيادة المعنى، فإن الفعل الواحد إذا جرى بين اثنين يكون مزاولته أشق من مزاولته وحده، ولذا قيل: المفاعلة إذا لم تكن للمبالغة فهي للمبالغة أي: نستعظم غاية الاستعظام، وقوله: أحدنا؛ روي برفع الدال، ومعناه يجد أحدنا التكلم به عظيما لقبحه، ويجوز النصب على نزع الخافض أي: يعظم، ويشق التكلم به على أحدنا (قال: (أوقد وجدتموه) ؟ الهمزة للاستفهام التقريري، والواو المقرونة بها للعطف على مقدر أي: (حصل ذلك) ، وقد وجدتموه، والضمير لما يتعاظم أي: ذلك الخاطر في أنفسكم تقريرا وتأكيدا، فالوجدان بمعنى المصادفة، أو المعنى أحصل ذلك الخاطر القبيح، وعلمتم أن ذلك مذموم غير مرضي فالوجدان بمعنى العلم. (قالوا: نعم) . قال: (ذاك) : إشارة إلى مصدر وجد أي: وجدانكم قبح ذلك الخاطر، أو مصدر يتعاظم أي: علمكم بفساد تلك الوساوس، وامتناع نفوسكم، وتجافيها عن التفوه بها (صريح الإيمان) أي: خالصه يعني أنه أمارته الدالة صريحا على رسوخه في قلوبكم، وخلوصها من التشبيه، والتعطيل؛ لأن الكافر يصر على ما في قلبه من تشبيه الله سبحانه بالمخلوقات، ويعتقده حسنا، ومن استقبحها، وتعاظمها لعلمه بقبحها، وأنها لا تليق به تعالى كان مؤمنا حقا، وموقنا صدقا فلا تزعزعه شبهة، وإن قويت، ولا تحل عقد قلبه ريبة، وإن موهت، ولأن من كان إيمانه مشوبا يقبل الوسوسة، ولا يردها وقيل المعنى أن الوسوسة أمارة الإيمان؛ لأن اللص لا يدخل البيت الخالي، ولذا روي عن علي رضي الله عنه، وكرم الله وجهه: أن الصلاة التي لا وسوسة فيها إنما هي صلاة اليهود، والنصارى" (رواه مسلم)."

(کتاب الایمان،باب الوسوسۃ،ج:۱،ص:۱۳۶،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100716

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں