مجھے اکثر لگتا ہے کہ میں نے کفریہ جملہ کہہ دیا ہے، میں اس حد تک پریشان ہوں کہ اب نہیں بولتے ہوۓ بھی پریشان ہوتا ہوں کہ کہیں کچھ کفریہ نہ کہہ دوں، ایک دن میں کئی مرتبہ تجدیدِ ایمان کرتا ہوں، میں کیا کروں؟ اور اگر کبھی واقعی کسی دوست کے سامنے کفریہ جملہ بول دیا ہو، مگر میرے کسی دوست کو یہ پتا نہ چلا ہو کہ یہ جملہ جو میں نے بولا وہ کفریہ ہے تو کیا تجدیدِ ایمان ان کے سامنے کرنا ضروری ہوگا یا میں نے جو تجدیدِ ایمان اکیلے میں کیاہو، وہ کافی ہوگا؟
واضح رہے کہ صرف کفریہ کلمات کہنے کے وہم یا شک کی وجہ سے کوئی شخص ایمان سے نہیں نکلتا، لہذا سائل کو چاہیے کہ اس وہم میں نہ پڑے، نماز اور ذکر و اذکار کا اہتمام کرے اور گناہوں سے اجتناب کرے۔
باقی اگر تجدید ایمان کی کبھی ضرورت پڑ بھی جائے تو اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ جس کے سامنے کفریہ کلمات کہیں ہوں اس کے سامنے ہی تجدیدِ ایمان کرے، بلکہ تنہا بھی تجدیدِ ایمان کرسکتا ہے، البتہ جو شخص شادی شدہ ہو اور واقعۃً اس کے منہ سے کفریہ کلمات نکل گئے ہوں تو اس کے لیے تجدید ایمان کے ساتھ تجدید نکاح بھی ضروری ہے، جس کے لیے شرعی گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔
شرح المجلۃ میں ہے:
"اليقين لا يزول بالشك،اليقين طمانينة القلب علی حقيقة الشيئ والشك استواء طرفي الشيئ وهو الوقوف بين الشيئين بحيث لا يميل القلب الی احدهما ."
(رقم الماده 4، ج:1، ص:20، ط:دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501100252
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن