بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کفریہ باتوں پر مشتمل مجالس میں شرکت کرنے کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص ہمارے سامنے کسی محفل میں خدا نخواستہ کوئی کفریہ بات کردے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ اگر وہ شخص ہم سے عمر میں بڑا ہو، تو کیا کرنا چاہیے ،اوراگر کوئی شخص اپنے کام میں لگا ہو، اور دور کہیں سے کسی دو باتیں  کرنے والوں کی آوازیں  آئیں ، جس میں  وہ کوئی کفریہ بات کہ رہےہوں، تو کیا اپنا کام چھوڑ کر اس کے پاس جاکر اسے منع کرنا پڑے گا؟ اور اگر کوئی کفریہ بات سن کر کہنے والے کے  ڈر کی وجہ سے ،یا کسی اور وجہ سے منع نہ کرے ،تو کیا حکم ہوگا؟ اور اگر کوئی وجہ نہیں تھی ؟پھر بھی منع نہیں کیا تو کیا حکم ہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ کسی مسلمان کے لیےایسی مجالس میں شرکت کرنا حرام ہے جہاں  کفریہ باتیں کی جاتی ہوں، البتہ اگر اتفاقاً اور غیر ارادی  طورپر کوئی شخص ایسی مجالس  (جہاں کوئی حرام وناجائز اور کفریہ باتیں کی جارہی ہوں)میں شریک ہوجائے،تو  اس پر لازم ہے کہ حتی الامکان برائی کو روکنے کی کوشش کرے، چاہے برائی اسی مجلس میں ہو رہی ہو یا کسی اور مجلس میں، اور اگر وہ گناہ کو روکنے کی قدرت رکھتا ہو چاہے عملی طور پر یا زبانی طور پر، اگر کفریہ کلمات کوئی بڑی عمر کا شخص کہہ رہا ہو تو اسے مناسب طریقے سے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاہم اگر اسے روکنا  اس کے بس میں نہ ہو ،اور منع کرنے کی اسے قدرت نہ ہو، تو ایسی مجلس سے فوراً دور ہونا لازم ہے ، ورنہ غیر دانستہ طورپر وہ شخص خود  اس مجلس میں شرکت کے گناہ کا مرتکب ہوجائےگا۔

اگر برائی کو روکنے کی  قدرت رکھنے کے باوجود  وہ شخص اسے نہ روکے ، اور بلا وجہ اسی مجلس میں شریک رہے تو یہ اس کی طرف سے کفریہ کلمات پر رضا مندی کی دلیل ہے ، جس سے اس كے كفر میں واقع ہونے كا قو ی اندیشہ ہے ، لہذا ایسی صورت میں قطعاً اس طرح کے مجالس میں شرکت کرنا نہیں چاہیے،اور اگر شرکت کےبعد اس مجلس کی خرافات کاعلم ہوجائے ،تو روکنے پر قدرت ہونے کی صورت میں انہیں روکنا لازم ہے،اور اگر روکنے پر قدرت نہ ہوتو فوراً علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے۔

تفسیر قرطبی میں ہے:

"قوله تعالى: (وإذا رأيت الذين يخوضون في آياتنا فأعرض عنهم) فيه مسألتان ... فأدب الله عز وجل نبيه (صلى الله عليه وسلم ) بهذه الآية، (لأنه) كان يقعد إلى قوم من المشركين يعظهم ويدعوهم فيستهزءون بالقرآن، فأمره الله أن يعرض عنهم إعراض منكر. ودل بهذا على أن الرجل إذا علم من الآخر منكرا وعلم أنه لا يقبل منه فعليه أن يعرض عنه إعراض منكر ولا يقبل عليه ... قال ابن العربي: وهذا دليل على أن مجالسة أهل الكبائر لا تحل. قال ابن خويز منداد: من خاض في آيات الله تركت مجالسته وهجر، مؤمنا كان أو كافرا. قال: وكذلك منع أصحابنا الدخول إلى أرض العدو ودخول كنائسهم والبيع، ومجالس الكفار وأهل البدع، وألا تعتقد مودتهم ولا يسمع كلامهم ولا مناظرتهم. وقد قال بعض أهل البدع لأبي عمران النخعي: اسمع مني كلمة، فأعرض عنه وقال: ولا نصف كلمة۔ملخصاً."

(سورۃ الانعام آیت :68،ج:7،ط:12ط:دار الكتب المصرية - القاهرة)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري - رضي الله عنه - عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، ‌فإن ‌لم ‌يستطع فبلسانه، ‌فإن ‌لم ‌يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان. رواه مسلم ... وخلاصة الكلام: من أبصر ما أنكره الشرع (فليغيره بيده) أي: بأن يمنعه بالفعل بأن يكسر الآلات ويريق الخمر ويرد المغصوب إلى مالكه، (‌فإن ‌لم ‌يستطع) أي: التغيير باليد وإزالته بالفعل، لكون فاعله أقوى منه (فبلسانه) أي: فليغيره بالقول وتلاوة ما أنزل الله من الوعيد عليه، وذكر الوعظ والتخويف والنصيحة (‌فإن ‌لم ‌يستطع) أي: التغيير باللسان أيضا (فبقلبه) : بأن لا يرضى به وينكر في باطنه على متعاطيه، فيكون تغييرا معنويا إذ ليس في وسعه إلا هذا القدر من التغيير، وقيل: التقدير فلينكره بقلبه لأن التغيير لا يتصور بالقلب، فيكون التركيب من باب: علفتها تبنا وماء باردا ."

(کتاب الآداب ،باب الامر باالمعروف،ج:8،ص:3208،ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100305

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں