بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کفریہ باتیں سوچنا


سوال

جان بوجھ  کر کفریہ بات سوچنے والے کا کیا حکم ہے؟

جواب

غیر اختیاری وسوسہ آنا اور  اسے برا سمجھنا ایمان کی علامت ہے، حدیثِ مبارک میں آتا ہے: " حضرت ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا واقعی تم اسی طرح پاتے ہو؟ (یعنی گناہ سمجھتے ہو) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا:  جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا:  یہ تو واضح ایمان ہے۔

لہذا اگر کسی شخص کو غیر اختیاری طور پر ایسے خیالات اور وساوس آتے ہوں تو وہ ان سے پریشان نہ ہو۔ ان وساوس اور خیالات کا علاج یہ ہے کہ ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیا جائے، اور اپنے اختیار سے اپنے دل و دماغ میں کفریہ وساوس اور خیالات کو جگہ نہ دی جائے۔   جو شخص کفریہ خیالات لائے اور انہیں طول دے یہ ایمان کے لیے خطرہ کی بات ہے، البتہ جب تک ایسی کفریہ باتیں خیالات اور وساوس تک محدود ہوں گی،  کفر کا حکم نہیں لگے گا۔

بصورتِ مسئولہ جان بوجھ کر کفریہ بات سوچنا اور ایسے نظریات کو دل و دماغ میں جگہ دینا جائز نہیں ہے، اگر اس طرف میلان پایا جائے تو ایمان کے لیے خطرے کی بات ہے۔

جب بھی ایسے خیالات اور سوچیں دل میں آئیں تو آدمی کو کسی نیک کام میں مشغول ہوجانا چاہیے، اور اللہ تعالیٰ سے ان پر توبہ استغفار کرنا چاہیے اور اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے، ساتھ ساتھ  ایسے شخص کو   "لاحول ولاقوة إلا بالله" اور سورہ اخلاص کثرت سے پڑھنی چاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109200542

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں