بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کفریہ الفاظ کہنے کے بعد تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا طریقہ اور گونگے اور بہرے کا نکاح


سوال

1)ایک شادی  شدہ شخص(میرے دوست) نے کفریہ الفاظ کہے تو اس کا تجدید نکاح اور تجدید ایمان کا طریقہ تحریر کردیں ، آیا جس طرح مسجد میں  گواہوں کے سامنےنکاح کا ایجاب و قبول ہوتا ہے  ایسے ہی تجدید نکاح ہوگا؟ اور کیا مہر جدید دینا ہوگا؟ 

2)ایک شخص گونگا اور بہرہ ہے اس کے  نکاح کا ایجاب و قبول کس طرح کرایا جائے گا؟

وضاحت :

(1) میرے دوست نے اپنے دوست سے کہا تھا کہ بھائی داڑھی کاٹنا گناہ ہے، تو اس نے جواب میں کہا کہ کوئی گناہ نہیں ہے، بلکہ ثواب اور جائز ہے ، اور تمہاری داڑھی تو بکری جیسی لگ رہی ہے (یہ جملہ اس نے استہزاءًکہا تھا)۔

(2)میرا لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے تو اکثر ان سے ایسے کلمات  بولے جاتے ہیں تو مجھے تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا طریقہ بتادیں؛ تاکہ پھر  میں ان کا تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرا سکوں۔

جواب

1) سائل کے دوست کا داڑھی کاٹنے کو گناہ نہ سمجھنا بلکہ جائز اور ثواب کا کام کہنا اور استہزاءً یہ کہنا کہ تمہاری داڑھی تو بکری جیسی لگ رہی ہے ، کہنے سے  وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا ہے، پس  تجدید ایمان (دوبارہ ایمان) لانے کے بعد اگر میاں بیوی اپنی  رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں، تو اس کیلئے دوبارہ سے نئے مہر کیساتھ نکاح کیا جائے گا۔

تجدید ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ اولاً توبہ کرے پھر  کلمۂ شہادت زبان سے ادا کیا جائے اور دل سے اس کی تصدیق کی جائے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی کتابوں، فرشتوں، رسولوں، آخرت کے دن، اچھی بری تقدیر اور روزِ قیامت جیسے بنیادی عقائد پر ایمان کا اعتراف کرلے۔ نیز اگر کسی چیز سے انکار کی بنا پر ایمان سے خارج ہوگیا تھا تو اس کا اقرار کر لے (مثلاً توحید کا انکار کرنے کی وجہ سے ایمان سے خارج ہوگیا تھا تو توحید کا اقرار کرے)، اور کسی ایسی چیز کو اختیار کرلیا تھا جو ایمان کے خلاف تھی تو اس سے بے زاری اور براءت کرے، مثلاً عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا جس وجہ سے ایمان سے خارج ہوگیا تھا تو عیسائی مذہب سے بے زاری  اور براءت کرے۔

تجدیدِ نکاح کا طریقہ یہ ہے کہ خطبہ نکاح پڑھنے کے بعد دو مسلمان عاقل بالغ مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ ایجاب و قبول کرلیا جائے۔
البتہ  نکاح کے وقت خطبہ پڑھنا  سنت اور مسجد میں  نکاح کرنامستحب ہے، لہذا اگر خطبہ کے بغیریامسجد کے علاوہ کسی اور جگہ بھی  دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے صرف ایجاب و قبول کر لیا جائے، تب بھی نکاح ہو جائے گا۔ اور تجدیدِ نکاح اعلانیہ کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ اگر کفریہ کلمہ اعلانیہ کہا ہو تو تجدیدِ ایمان و نکاح ان لوگوں کے سامنے کرلینا چاہیے جن کے سامنے کفریہ کلمہ کہا ہو۔
واضح رہے کہ مہر کی کم از کم مقدار دس درھم ہے، چاندی کے حساب سے اس کی مقدار تیس گرام چھ سو اٹھارہ ملی گرام (30.618) اور تولہ کے حساب سے 31.5 ماشہ چاندی بنتی ہے۔

2)گونگا اور بہرہ اگر لکھنا پڑھنا جانتا ہے، تو اس کے سامنے ایک کاغذ پر ایجاب لکھ دیا جائے اور وہ جواب میں "مجھے قبول ہے" لکھ دے، تواس کا نکاح منعقد ہوجائے گا اور اگر لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتا، تو پھر اشارہ سے "مجھے قبول ہے" بتادے، نکاح منعقد ہوجائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم اعلم أنه يؤخذ من مسألة العيسوي أن من كان كفره بإنكار أمر ضروري كحرمة الخمر مثلًا أنه لا بد من تبرئه مما كان يعتقده لأنه كان يقر بالشهادتين معه فلا بد من تبرئه منه كما صرح به الشافعية وهو ظاهر."

(کتاب الجہاد ، باب المرتد، ج:4، ص:228، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي الفتح: من هزل بلفظ كفر ارتد وإن لم يعتقده للاستخفاف فهو ككفر العناد.
(قوله: من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لاينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار لأن التصديق، وإن كان موجوداً حقيقةً لكنه زائل حكماً؛ لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارة على عدم وجوده كالهزل المذكور، وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفاً في قاذورة فإنه يكفر، وإن كان مصدقاً لأن ذلك في حكم التكذيب، كما أفاده في شرح العقائد، وأشار إلى ذلك بقوله: للاستخفاف، فإن فعل ذلك استخفافاً واستهانةً بالدين فهو أمارة عدم التصديق، ولذا قال في المسايرة: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الإيمان أمور الإخلال بها إخلال بالإيمان اتفاقا، كترك السجود لصنم، وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة.
وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود، ثم حقق أن عدم الإخلال بهذه الأمور أحد أجزاء مفهوم الإيمان فهو حينئذ التصديق والإقرار وعدم الإخلال بما ذكر بدليل أن بعض هذه الأمور، تكون مع تحقق التصديق والإقرار، ثم قال ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافا بها بسبب أنه فعلها النبي صلى الله عليه وسلم زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق (قوله: فهو ككفر العناد) أي ككفر من صدق بقلبه وامتنع عن الإقرار بالشهادتين عنادا ومخالفة فإنه أمارة عدم التصديق."

(کتاب الجہاد، باب المرتد، ج:4، ص:222، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل كفر بلسانه طائعاً، وقلبه مطمئن بالإيمان يكون كافراً، ولايكون عند الله مؤمناً، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب السير، الباب العاشر في البغاة، ج:2، ص:283، ط:رشيديه)

وفیہ ایضاً:

"وكما ينعقد بالعبارة ينعقد بالإشارة من الأخرس إن كانت إشارته معلومة كذا في البدائع."

(کتاب النکاح، الباب الثانی فیما ینعقد بہ النکاح ومالاینعقد بہ، ج:1، ص:270، ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الفتح ينعقد النكاح من الأخرس إذا كانت له إشارة معلومة. "

(کتاب النکاح، ج:3، ص:21، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"قلت بل هذا القول تصريح بما هو المفهوم من ظاهر الرواية ففي كافي الحاكم الشهيد ما نصه فإن كان الأخرس لا يكتب وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز وإن كان لم يعرف ذلك منه أو شك فيه فهو باطل اھ فقد رتب جواز الإشارة على عجزه عن الكتابة فيفيد أنه إن كان يحسن الكتابة لا تجوز إشارته. "

(کتاب الطلاق، مطلب فی تعریف السکران وحکمہ، ج:3، ص:241، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں