بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کفو میں چھپ کر نکاح کا حکم


سوال

ایک لڑکا اور لڑکی نے چُھپ کر دو گواہ کی موجودگی میں ایجاب وقبول کیا، لڑکا ایک سال پہلے کچھ کبیرہ گناہ ،زنا کا مرتکب تھا؛ لیکن اب توبہ تائب ہوکر بالکل دین دار ہے ۔(1) اب دین داری کے اعتبار سے لڑکا لڑکی برابر ہیں۔ (2) اور دونوں شیخ برادری کے ہیں۔ (3) لڑکی سے زیادہ لڑکا مال دار گھرانے سے ہے۔ (4) توبہ کے بعد لڑکا شریف بھی ہے۔(5) اور لڑکے نے  اپنا پیشہ نکاح سے کچھ پہلے  شروع کیا ہے ،پیشہ کے اعتبار سے بھی لڑکا لڑکی برابر ہیں ۔

اب آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ نکاحِ کفو شمار ہوگا يا غیر کفو؟ اور عورت کے اولیاء کو حقِ اعتراض حاصل ہوگا یا نہیں؟

(نوٹ) آپ ہمیں تھوڑا تفصیل کے ساتھ بتائیے کہ حسب نسب سے کیا مراد ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگرلڑکااورلڑکی نسب، مال ،دِین داری ،شرافت اورپیشے میں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوں تویہ دونوں ایک دوسرے کے ’’کفو‘‘  قرار پائیں گے، ان کاباہمی رضامندی کے ساتھ  نکاح درست ہے اور اگر لڑکا اور لڑکی کے درمیان مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق برابری نہ ہو تو اسے ان دونوں کا آپس میں ’’غیر کفو‘‘  (یعنی ہم پلہ نہ)  ہونا قرار دیا جائے گا۔باقی حسب نسب  میں عجمی ( غیر عربی النسل ) خاندانوں اور برادریوں میں "کفاءت" کے مسئلہ کا مدار لوگوں کے عرف پر ہے، پس جن برادریوں کو آپس میں عام طور پر ایک دوسرے کا کفو سمجھا جاتا ہے، اُنہیں کفو سمجھا جائے گا، اور جن برادریوں میں آپس میں رشتہ داریاں معیوب سمجھی جاتی ہیں، اُنہیں غیر کفو قرار دیا جائے گا؛لہذا نکاح کرتے وقت نسب ، خاندان اور برادری کو مدنظر رکھنا اور جن خاندانوں میں رشتہ کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، اس میں رشتہ کرنے سے اجتناب کرنا، شرعا منع نہیں ہے۔

  اگر عاقلہ بالغہ  لڑکی  چھپ کر اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر گواہوں کی موجودگی میں اپنا نکاح خود کرے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے، اگرچہ والدین/ ولی  کی رضامندی کے بغیر  نکاح کرنا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے،  اگر لڑکی نے  ولی کی اجازت کے بغیر    غیر کفو میں نکاح کیا   تو   لڑکی کے اولیاء کو  اس کی اولاد ہونے سے پہلے پہلے عدالت سے  رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اگر نکاح کے بعد اس لڑکی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوجائے تو پھر اولیاء کو فسخِ نکاح کا اختیار نہیں ہوتا۔

اور اگر عاقلہ بالغہ لڑکی نے ولی کی اجازت کے بغیر کفو میں نکاح کیا ہے توپھر لڑکی کے اولیاء   کو وہ نکاح  فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ نکاح منعقد ہوچکا ہے، اب چوں کہ  لڑکا دین،نسب ،پیشہ ،مال کے اعتبار سے لڑکی کا ہم پلہ اور کفو ہے لہذا لڑکی کے اولیاء کو اس  نکاح پر اعتراض کا حق حاصل نہیں ۔

در مختار میں ہے :

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي)، والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه، وما لا فلا."

(کتاب النکاح ،باب الولی،ج:۳،ص:۵۵،سعید)

بدائع الصنائع میں ہے :

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول، سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر، غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض."

(کتاب النکاح ،فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح،ج:۲،ص:۲۴۷،دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق، ولا يكون التفريق بذلك إلا عند القاضي، أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما."

(کتاب النکاح ،الباب الخامس فی الاکفاء فی النکاح،ج:۱،ص:۲۹۲،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100192

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں