بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کفار کو نقصان پہنچانے کے لیے ان کی بنائی ہوئی چیزوں کی تجارت ترک کرنا


سوال

فرانس یا ڈنمارک میں جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہوئی تھی تو اس میں ایک بائیکاٹ کرنے والی اشیاء کی لسٹ آئی تھی جس میں انہوں نے کنور کی اشیاء مطلب نوڈلز وغیرہ کا بائیکاٹ کرنے کو کہا تھا اس میں کئی چیزیں تھیں لیز کے چپس پیپسی،7 اپ، کولڈ ڈرنک وغیرہ بھی تھیں تو کیا مفتی صاحب یہ چیزیں اب استعمال کرنا حرام ہے کیونکہ میرے گھر میں یہ چیزیں کھاتے ہیں سوائے میرے تو اگر میں یہ سب کھانا شروع کر دوں تو کیا گناہ گار ہوں؟ نیز کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کے ایف سی اور میکڈونلڈز کھانا حرام ہے کیونکہ یہ اپنا پیسہ باہر مسلمانوں پر حملہ کرنے کےلیے دیتے ہیں تو کیا یہ کھانا بھی حرام ہے؟

جواب

عام حالات میں غیر مسلموں کے ساتھ تجارت،ملازمت اور صنعت وحرفت کے معاملات کرنا جائز ہے ،بجز ایسی حالت میں کہ ان معاملات سے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو،فقہائے کرام  رحمہم اللہ نےاسی بنا پر کفار اہل حرب کے ہاتھ اسلحہ فروخت کرنے کو ممنوع قرار دیا ہے۔

اسی طرح کبھی کبھاربعض غیر مسلم ممالک میں  اسلامی شعائر یا دینی مقدّسات کے ساتھ توہین آمیزواقعات   پیش آتے ہیں تو  ان کا اقتصادی بائیکاٹ کرنا ان کی اصلاح یا توہین آمیز اقدامات کے انسداد کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوتاہے، اس لیے مذہبی جرائم پیشہ ممالک کو ان کے  گستاخانہ جرائم سے روکنے کے لیے ان کے ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا شرعًا ناجائز  نہیں ہے،  گستاخانہ جرائم کے انسداد کے  لیے بالکل کرنا چاہیے،  اس نوعیت کا بائیکاٹ،  اسلامی غیرت اور دینی حمیت کا مظہر بھی ہوگا، باقی جن اشیاء کی لسٹ آئی ہے،  ان کے بارے میں تحقیق کر لی جائے کہ وہ اشیاء واقعی ان لوگوں کی ہیں یا نہیں۔

جہاں تک کے ایف سی اور میکڈونلڈزکے کھانے کی حلت وحرمت کا تعلق  اس کے ذبح اور کھانے کی تیاری میں شامل تمام اجزاء  کے حلال یا حرام ہونے پر ہے، پس اگر مذکورہ  کمپنی والے مغربی ممالک سے  درآمد شدہ  ایسی مرغی وغیرہ استعمال کرتے ہوں  جو شرعی اصولوں کے مطابق ذبح نہ کی گئی ہو یا اس کی   ریسیپی / تیار کرنے میں شامل مصالحہ جات میں شامل اجزاء خصوصًا چیز (پنیر) حلال نہ ہو، بلکہ اس میں کوئی حرام جزء شامل ہو تو اس کمپنی کی اشیاء کھانا حلال نہ ہوگا، بصورتِ  دیگر حلال ہوگا،  لہذا مکمل تحقیق کے بغیر نہ کھایا جائے۔ تسلی بخش تحقیق میسر نہ ہو تو اجتناب کرنا بہتر ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا بأس بأن يكون بين المسلم والذمي ‌معاملة إذا كان مما لا بد منه كذا في السراجية."

(کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس عشرفی الکسب،ج5،ص348،ط؛دار الفکر)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(ولم نبع) في الزيلعي يحرم أن نبيع (منهم ما فيه تقويتهم على الحرب) كحديد وعبيد وخيل (ولا نحمله إليهم ولو بعد صلح) ؛ لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن ذلك وأمر بالميرة وهي الطعام والقماش فجاز استحسانا.

(قوله ولم نبع إلخ) أراد به التمليك بوجه كالهبة قهستاني، بل الظاهر أن الإيجار والإعارة كذلك أفاده الحموي؛ لأن العلة منع ما فيه تقوية على قتالنا كما أفاده كلام المصنف (قوله يحرم) أي يكره كراهة تحريم قهستاني (قوله كحديد) وكسلاح مما استعمل للحرب، ولو صغيرا كالإبرة، وكذا ما في حكمه من الحرير والديباج فإن تمليكه مكروه؛ لأنه يصنع منه الراية قهستاني (قوله وعبيد) ؛ لأنهم يتوالدون عندهم فيعودون حربا علينا مسلما كان الرقيق أو كافرا بحر (قوله ولا نحمله إليهم) أي لبيع ونحوه فلا بأس لتاجرنا أن يدخل دارهم بأمان ومعه ‌سلاح لا يريد بيعه منهم إذا علم أنهم لا يتعرضون له وإلا فيمنع عنه كما في المحيط قهستاني، وفي كافي الحاكم لو جاء الحربي بسيف فاشترى مكانه قوسا أو رمحا أو فرسا لم يترك أن يخرج، وكذا لو استبدل بسيفه سيفا خيرا منه، فإن كان مثله أو دونه لم يمنع، والمستأمن كالمسلم في ذلك إلا إذا خرج بشيء من ذلك فلا يمنع من الرجوع به. اهـ. نهر (قوله ولو بعد صلح) تعميم للبيع والحمل قال في البحر؛ لأن الصلح على شرف الانقضاء أو النقض (قوله فجاز استحسانا) أي اتباعا للنص، لكن لا يخفى أن هذا إذا لم يكن بالمسلمين حاجة إلى الطعام فلو احتاجوه لم يجز."

(کتاب الجھاد،ج4،ص134،ط؛سعید)

امداد الفتاوی میں ہے:

”اضرار کفار کے لیے ان کی بنائی ہوئی چیزوں کی تجارت ترک کرنا۔

سوال:طرابلس پر اٹلی کا قبضہ ہوجانے سے ہندوستان کے مسلمانوں میں جس قدر بے چینی ہے ایک گونہ اثر اس کا دہلی میں بھی ہے،چنانچہ دہلی کے ایک جلسہ میں یہ بھی کہا گیا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اٹلی کے ساتھ تجارتی ساخت کے کل سامان کا استعمال ترک کردیں،خرید وفروخت بالکل چھوڑدیں،جو ایسا کرے گاوہ کافر ہے،سلطان کا خیرخواہ نہیں اٹلی کا حامی ہے اور اس کا عملی نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے اسی جلسہ میں اٹلی ساخت کی ترکی ٹوپیاں اتار اتار کر جلادیں،میری دکان پر سامان اکثر فینسی ہوتا ہےجس میں بہت سی چیزیں اٹلی ساخت بٹوا،قینچی،چاقو،بٹن،استرہ وغیرہ وغیرہ بھی ہوتے ہیں،لوگوں  نے بہت تنگ کرنا شروع کیا کہ ان چیزوں کا فروخت کرنا چھوڑدوں۔فقط

الجواب؛کافر ہونے کی تو کوئی وجہ نہیں اور بلکہ بیع ناجائز بھی نہیں،لیکن افضل یہی ہے بشرط یہ ہے کہ اپنا ضرر اور اتلاف مال نہ ہو ورنہ افضل کیا جائز بھی نہیں ہے۔فقط“

(کتاب البیوع،ج3،ص99،ط؛مکتبہ دار العلوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102839

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں