بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کفر کا خیال آنے سے ایمان ونکاح کا حکم


سوال

 اگر کوئی بندہ کفر کا خیال لاۓ تو کیا تجد ید ایمان اور نکاح کا حکم ہوگا؟

جواب

اگر کسی شخص کو غیر اختیاری طور پر  کفریہ  خیالات اور وساوس آتے ہوں تو وہ ان سے پریشان نہ ہو، ان خیالات کا علاج یہ ہے کہ ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیا جائے، اور اپنے اختیار سے اپنے دل و دماغ میں کفریہ وساوس اور خیالات کو جگہ نہ دی جائے۔   البتہ جو شخص خود کفریہ خیالات لائے اور انہیں طول دے یہ ایمان کے لیے خطرہ کی بات ہے، البتہ جب تک ایسی کفریہ باتیں خیالات اور وساوس تک محدود ہوں گی،  کفر کا حکم نہیں لگے گااور تجدید ایمان اور نکاح کی ضرورت نہیں ہوگی ۔

جب بھی ایسے خیالات اور سوچیں دل میں آئیں تو آدمی کو کسی نیک کام میں مشغول ہوجانا چاہیے، اور اللہ تعالیٰ سے ان پر توبہ استغفار کرنا چاہیے اور اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے، ساتھ ساتھ  ایسے شخص کو   "لاحول ولاقوة إلا بالله" اور سورہ اخلاص کثرت سے پڑھنی چاہیے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"( «في أنفسنا ما ‌يتعاظم ‌أحدنا أن يتكلم به» ) أي: نجد في قلوبنا أشياء قبيحة نحو: من خلق الله؟ وكيف هو؟ ومن أي شيء؟ وما أشبه ذلك مما يتعاظم النطق به لعلمنا أنه قبيح لا يليق شيء منها أن نعتقده، ونعلم أنه قديم، خالق الأشياء، غير مخلوق، فما حكم جريان ذلك في خواطرنا؟وتعاظم: تفاعل بمعنى المبالغة؛ لأن زيادة المبنى لزيادة المعنى، فإن الفعل الواحد إذا جرى بين اثنين يكون مزاولته أشق من مزاولته وحده، ولذا قيل: المفاعلة إذا لم تكن للمبالغة فهي للمبالغة أي: نستعظم غاية الاستعظام، وقوله: أحدنا؛ روي برفع الدال، ومعناه يجد أحدنا التكلم به عظيما لقبحه، ويجوز النصب على نزع الخافض أي: يعظم، ويشق التكلم به على أحدنا (قال: (أوقد وجدتموه) ؟ الهمزة للاستفهام التقريري، والواو المقرونة بها للعطف على مقدر أي: (حصل ذلك) ، وقد وجدتموه، والضمير لما يتعاظم أي: ذلك الخاطر في أنفسكم تقريرا وتأكيدا، فالوجدان بمعنى المصادفة، أو المعنى أحصل ذلك الخاطر القبيح، وعلمتم أن ذلك مذموم غير مرضي فالوجدان بمعنى العلم. (قالوا: نعم) . قال: (ذاك) : إشارة إلى مصدر وجد أي: وجدانكم قبح ذلك الخاطر، أو مصدر يتعاظم أي: علمكم بفساد تلك الوساوس، وامتناع نفوسكم، وتجافيها عن التفوه بها (صريح الإيمان) أي: خالصه يعني أنه أمارته الدالة صريحا على رسوخه في قلوبكم، وخلوصها من التشبيه، والتعطيل؛ لأن الكافر يصر على ما في قلبه من تشبيه الله سبحانه بالمخلوقات، ويعتقده حسنا، ومن استقبحها، وتعاظمها لعلمه بقبحها، وأنها لا تليق به تعالى كان مؤمنا حقا، وموقنا صدقا فلا تزعزعه شبهة، وإن قويت، ولا تحل عقد قلبه ريبة، وإن موهت، ولأن من كان إيمانه مشوبا يقبل الوسوسة، ولا يردها وقيل المعنى أن الوسوسة أمارة الإيمان؛ لأن اللص لا يدخل البيت الخالي، ولذا روي عن علي رضي الله عنه، وكرم الله وجهه: أن الصلاة التي لا وسوسة فيها إنما هي صلاة اليهود، والنصارى" (رواه مسلم)."

(کتاب الایمان،باب الوسوسۃ،ج:1،ص:136،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں