بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کچھ وصول کیے بغیر ورثہ کا حق چھوڑنے کا حکم


سوال

۱)مرحومہ نے اپنی حیاتی میں اپنی بالغ پوتی کو دو   تولےسونے کا مالک بنایا اور قبضہ بھی دے دیا۔ اب مرحومہ کی وراثت تقسیم کرتے وقت ان دو تولے کا شمار ہوگا یا نہیں؟

۲) وراثت کا حق لینے سے پہلے معاف کرسکتے ہیں یا نہیں؟

۳) مرحومہ کے انتقال کے بعد بچوں نے آپس میں وراثت تقسیم کی تو ایک بہن نے ورثہ لینے سے پہلے کہہ دیا کہ مجھے نہیں چاہیے، آپ تینوں بھائی آپس میں تقسیم کرلو تو اس کو حق ملے گا یانہیں؟

جواب

۱) واضح رہے کہ وراثت اس مال میں جاری ہوتی ہے جو مرحوم کے انتقال کے وقت موجود ہوتا ہے۔ زندگی میں جو مرحوم نےخرچ کردیا یا گفٹ (ہبہ) کردیا اس پر  وراثت کے احکام جاری نہیں ہوتے لہذا صورت مسئولہ میں مرحومہ نے جو اپنی پوتی کو دو تولہ سونا  کا مالک بنا کر قبضہ دے دیا تو شرعا ان کی زندگی میں وہ پوتی اس دو تولہ سونے کی مالک بن گئی اور مرحومہ کی ملکیت اس دو تولے سونے سے ختم ہوگئی ۔ اب مرحومہ کے انتقال کے وقت جو کچھ مال انہوں نے چھوڑا ہے صرف  اس پر وراثت جاری ہوگی۔

۲،۳) واضح رہے کہ میراث ایک ایسا حق ہے کہ وہ وصول کرنے سے پہلے معاف نہیں کیا جاسکتا ہے ہاں یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ اپنا حصہ وصول کر کے پھر باقی ورثاء میں خود تقسیم کردیا جائے  یا پھر ورثہ کے مال میں سے کچھ حصہ لے کر اس کے عوض  باقی حصہ چھوڑ دیا جائے لہذا صورت مسئولہ میں جب تقسیم کے وقت ایک بہن نے اپنا حصہ بھائیوں کے حق میں  بغیر کسی عوض کےچھوڑ دیا تو شرعا یہ دستبرداری معتبر نہیں ہوئی اور اس بہن کا اب بھی ترکہ میں حق باقی ہے لہذا اس ترکہ کے مال کو دوبارہ تقسیم کیا جائے اور مذکورہ بہن چاہے تو اپنا حصہ خود رکھ لے یا  اپنا حصہ لے کر اپنی صوابدید پر بھائیوں میں تقسیم کردے یا پھر ترکہ سے کچھ حصہ وصول کر کے اس کے عوض باقی حصہ سے  دستبردار ہوجائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما حكمها فثبوت الملك للموهوب له غير لازم حتى يصح الرجوع والفسخ."

(کتاب الہبہ باب اول ج نمبر ۴ ص نمبر ۳۷۴،دار الفکر)

الأشباه والنظائر  میں ہے:

"لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك."

الفن الثالث، ما یقبل الاسقاط من الحقوق ص نمبر ۲۷۲،دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(فصل) ومن صالح من الغرماء أو الورثة على شيء من التركة فاطرحه كأن لم يكن ثم اقسم الباقي على سهام الباقين."

(کتاب الفرائض ،باب سادس عشر ج نمبر ۶ ص نمبر ۴۷۴،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101272

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں