بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

چند کہاوتوں کے استعمال کا حکم


سوال

مندرجہ ذیل محاورے ہم لوگ عام طور پر استعمال کر لیتے ہیں، ان کا علیحدہ علیحدہ شرعی حکم بتا دیجئے۔

لکھے موسی پڑھے خدا - نماز بخشوانے گئے تھے روزے گلے پڑ گئے۔ - بھوک سے آنتیں بھی قل ھو اللہ پڑھنے لگی۔ - ملا کی دوڑ مسجد تک۔

جواب

سوال میں آپ نے جو محاورے لکھے ہیں، ان میں بظاہر اصطلاحاتِ شرعیہ کااستعمال کیا گیا ہے، لیکن ان محاروں سے مقصود الفاظ نہیں، جس کی وجہ سے یہ سمجھا جائے کہ دین کے شعائر کے ساتھ استہزاء کیا گیا ہے، بلکہ مراد ایک مفہوم ہوتا ہے جو ان الفاظ سے سمجھ آتا ہے، چناں چہ ہر ایک محاورہ کا مفہوم ذیل میں لکھا جاتا ہے، ملاحظہ ہو:

لکھے موسی پڑھے خدا:

درست محاورہ یوں ہے:

"لکھے مُو سا ؛ پڑھے خود آ"، یعنی: جب بال کی طرح باریک لکھتے ہو تو خودآکرپڑھو۔

"ایسا باریک یا بد خط لکھنا کہ جسے اپنے سوا دوسرا نہ پڑھ سکے۔"

(فرہنگِ آصفیہ، جلد : 4 ، صفحہ : 197 ، طبع : اردو سائنس بورڈ)

نماز بخشوانے گئے تھے روزے گلے پڑ گئے

"گئے تھے نماز کو، روزے گلے پڑے: ایک مشکل سے بچنا چاہا دوسری مشکل اور گلے پڑی، ایک کام سے عذر کیا دوسرا کام اور سپرد ہوا، الٹے لینے کے دینے پڑ گئے، امید کے بر خلاف ظہور میں آیا، کہتے ہیں کوئی شخص پانچوں وقت کی نماز سے تنگ آ کر اس پابندی سے بچنے کے واسطہ کسی مولوی صاحب کے پاس گیا کہ میری نماز معاف کر دو، اس نے کہا: رمضان کے روزے بھی رکھا کرو؛ تا کہ پورا فرض ادا ہو، پس اسی وقت سے یہ مثل ہو گئی۔" 

(فرہنگِ آصفیہ، جلد : 4 ، صفحہ : 149 ، طبع : اردو سائنس بورڈ)

بھوک سے آنتیں بھی قل ھو اللہ پڑھنے لگی

"بھوکا مرنا، فاقہ کشی کرنا، تنگی سے گزر اوقات کرنا، مشکل سے گزر ہونا، بھوک کے مارے عاجز ہونا، انتڑیاں قل ھو اللہ پڑھنا، بھوک سے بے دم ہونا۔"

(فرہنگِ آصفیہ، جلد : 1 ، صفحہ : 446 ، طبع : اردو سائنس بورڈ)

ملا کی دوڑ مسجد تک

"جہاں تک آدمی کی دسترس ہوتی ہے وہیں تک جا سکتا ہے، اپنے مقدور اور حوصلہ کے مطابق کام کیا جاتا ہے، ہر شخص کی رسائی وہاں تک ہوتی ہے جہاں سے تجاوز نہیں کر سکتا۔"

(فرہنگِ آصفیہ، جلد : 4 ، صفحہ : 396 ، طبع : اردو سائنس بورڈ)

معلوم ہوا کہ ان محاوروں کے استعمال کے وقت مراد ایک خاص مفہوم ہوتا ہے، جو کہنے اور سننے والے دونوں کے ذہنوں میں موجود ہوتا ہے، مقصود نماز، روزے اور ملاّ کا استہزاء یا تمسخر ہزگز نہیں ہوتا، لہذا ان کہاوتوں کا استعمال اصولا مباح ہونے کے باوجود احتیاط بہتر ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512101390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں