بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو القعدة 1446ھ 23 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کتنے سونے پر زکات اورقربانی واجب ہے


سوال

میرے دو بچے طالب علم ہیں، ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ بیٹی کی عمر 18 سال ہے، اور بیٹے کی عمر 17 سال، دونوں کی کفالت میری ذمہ داری ہے، بچپن سے ان کی ملکیت میں سونا موجود ہے، جو انہیں بطور تحفہ ملا تھا، بیٹی کی ملکیت میں 1.93 تولہ سونا ہے، اور بیٹے کے پاس 1.48 تولہ سونا ہے، ان کے علاوہ کبھی کبھار عیدی یا تحفے کے طور پر انہیں پانچ سے آٹھ ہزار روپے مل جاتے ہیں، جو دو تین مہینوں میں خرچ ہو جاتے ہیں، اور پورا سال ان کے پاس نہیں رہتے، کیاان پر زکات اور قربانی واجب ہے ؟

جواب

سونے کی زکوۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے، اور  اس  کا یہ نصاب یعنی ساڑھے سات تولہ اس وقت ہے جب کہ سونے کے ساتھ کوئی اور قابلِ زکاۃ مال (چاندی، رقم، مالِ تجارت) موجود نہ ہو، لہٰذا اگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم  سونا ہو  اورنقد رقم، مالِ تجارت یا چاندی کچھ بھی موجود نہ ہو، تو اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔

لیکن اگر سونے کے ساتھ  کوئی اور قابلِ زکاۃ مال موجود ہو، تو پھر صرف سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ ایسی صورت میں چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، لہٰذا اگر سونے اور دوسرے قابلِ زکاۃ مال کو ملا کر مجموعی قیمت ساڑے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہوجائے تو اس پر زکاۃ ہوگی۔

(1)لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے مذکورہ بالغ  بچوں  کی ملکیت میں سال کے آغاز میں ضرورت سے زائد  سونا اور کچھ نقدی موجود ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ہو  اور دونوں کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  یا اس سے زائد ہو، اور سال کے اختتام پر بھی ان کے پاس سونا اور کچھ نقدی موجود ہو جن کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے نصاب کو پہنچتی ہو، تو ان پر زکات واجب ہوگی،اگرچہ سال کے درمیان میں  کچھ مال خرچ ہو کر عارضی طور پر نصاب سے کم رہ گیا ہو، کیوں کے وجوب زکات کے لیے سال کے شروع اور آخر میں نصاب کا مکمل ہونا ضروری ہے ،درمیان سال مال نصاب سے کم ہوجائے تو اس کا اعتبار نہیں، لیکن اگر سال کے اختتام پر صرف وہی سونا باقی ہو اور نقدی بالکل باقی نہ رہے، تو ان پر زکات واجب نہیں ہوگی  ، کیونکہ سونے کا نصاب مکمل نہیں۔

(2)قربانی کے ایام میں  اگر  ان  ملکیت میں موجود سونے کے علاوہ  دوسرے امول زکات میں سے کچھ نقدی وغیرہ  ہو، یا ضرورت سے زائد سامان موجود ہو،تو   ان کو ملاکر اگر ان کی   مجموعی مالیت   ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے  برابر ہوجائے،تو ان پر قربانی واجب ہوگی ،لیکن  اگر  قربانی کے ایام   میں ان کے پاس  صرف مذکورہ سونا ہو   نقدی وغیرہ نہ ہو ،تو ان پر قربانی واجب نہیں ۔

ملحوظ رہےکہ لڑکا اور لڑکی کے مال کا حساب جداگانہ طور پر کیا جائے گا،ملا کر مجموعی طور پر نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

" ( و ) يضم ( الذهب إلى الفضة ) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة ) وقالا بالإجزاء فلو له مائة درهم وعشرة دنانير قيمتها مائة وأربعون تجب ستة عنده وخمسة عندهما فافهم

وفي الرد: قوله ( ويضم الخ ) إلى عند الاجتماع أما عند انفراد أحدهما فلا تعتبر القيمة إجماعا بدائع لأن المعتبر وزنه أداء ووجوبا."

( کتاب الزكاة، باب زكاة المال، ج:2،ص:303 ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے :

"فأما إذا كان له الصنفان جميعًا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابًا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا وعند الشافعي لايضم أحدهما إلى الآخر بل يعتبر كمال النصاب من كل واحد منهما على حدة ....ثم اختلف أصحابنا في كيفية الضم فقال أبو حنيفة : يضم أحدهما إلى الآخر باعتبار القيمة ، وقال أبو يوسف ومحمد : يضم باعتبار الأجزاء".

(کتاب الزکاۃ ،فصل مقدار الواجب في زكاة الذهب،ج:2،ص:19، دارالفکر بیروت)

"مبسوط سرخسی" میں ہے:

"وإذا كان النصاب كاملا ‌في ‌أول ‌الحول ‌وآخره فالزكاة واجبة، وإن انتقص فيما بين ذلك وقتا طويلا ما لم ينقطع أصله من يده."

(كتاب الزكاة،زكاة الإبل، ج:2، ص:172، ط:دارالمعرفة)

تحفۃ الفقہاء ميں ہے:

"ثم مال الزكاة يعتبر فيه كمال النصاب ‌في ‌أول ‌الحول ‌وآخره ، ونقصان النصاب بين طرفي الحول لا يمنع وجوب الزكاة سواء كان مال التجارة أو الذهب والفضة أو السوائم هذا عند أصحابنا الثلاثة.

فأما إذا هلك النصاب أصلا بحيث لم يبق منه شيء يستأنف الحول لأنه لم يوجد شيء من النصاب الأصلي حتى يضم إليه المستفاد."

(كتاب الزكاة،‌‌باب زكاة أموال التجارة ج:1، ص:272، ط:دارالكتب العلمية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں