بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی شخص کا یہ کہنا کہ ’’قرآن علم ہے ایمان نہیں، ایمان چلہ چار ماہ میں ہے‘‘


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ یہ قرآن صرف اور صرف علم ہے ایمان نہیں ہے اگر ایمان ہے تو چلہ اور چار ماہ میں ہے۔ آیا اس شخص کا یہ کہنا کہاں تک درست ہے؟  اور اگر نہیں درست  ہے تو کیوں اور اس قول کے قائل پر  کیا حکم لگایا جائے گا ؟

جواب

واضح رہے کہ دین اسلام میں کئی  اَحکام و  اَعمال ایسے ہیں جو   ایمان (ایمانی کیفیات) بڑھانے  اور ایمان مضبوط کرنے اور ایمان کی حفاظت کا ذریعہ ہیں، بلکہ خود قرآن کریم نے ان کو ایمان میں بڑھوتری کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اور ان میں سے   قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کرنا اور ان میں غور وفکر کرنا بھی  شامل ہے؛ کیوں کہ قرآن کریم ہدایت کا سرچشمہ ہے  اور  ایمان و اسلام کی بنیاد ہے، محض کوئی معلوماتی کتاب نہیں۔  جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

" وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ اَيُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖٓ اِيْمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّهُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ  وَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوْا وَهُمْ كٰفِرُوْنَ "(التوبۃ: 124-125)

ترجمہ: اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اس نے تم میں سے کس کو ایمان میں زیادہ کیا ؟ پس جو لوگ ایمان لائے، سو ان کو تو اس نے ایمان میں زیادہ کردیا اور  وہ بہت خوش ہوتے ہیں، اور رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے تو اس نے ان کو ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی میں زیادہ کردیا اور وہ اس حال میں مرے کہ وہ کافر تھے۔

اسی طرح  ایمانیات   کے تذکرے کرنا، اور اللہ تعالی کی بڑائی کو  بیان کرنا بھی ایمان کو بڑھانے والے اعمال میں سے ہے۔چنانچہ روایات  میں ہے کہ صحابہ کرام اس قسم کی مجالس منعقد کرتے تھے۔

 مصنف ابن ابی شیبۃ میں ہے:

"32446 - حدثنا أبو أسامة عن موسى بن مسلم قال: حدثنا ابن سابط قال: كان عبد الله بن رواحة يأخذ بيد النفر من أصحابه فيقول: تعالوا (‌نؤمن) ‌ساعة، تعالوا فلنذكر الله ونزدد إيمانا، تعالوا نذكره بطاعته لعله يذكرنا بمغفرته."

(مصنف ابن أبي شيبة،كتاب الإيمان، باب، 17/ 54، الناشر: دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع، الرياض)

ترجمہ: حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نےاسود بن ہلال سے کہا: ہمارے پاس بیٹھو ؛تاکہ ہم کچھ ساعت ایمان تازہ کریں۔

مذکورہ بالا وضاحت کے بعد صورت مسئولہ میں  اگر کوئی  شخص واقعۃً یہ کہتا ہے کہ ’’قرآن صرف اور صرف علم ہے ایمان نہیں ہے اگر ایمان ہے تو چلہ اور چار ماہ میں ہے‘‘،  اور اس قول سے اس کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کریم سے صرف علم حاصل ہوگا، ایمان نہیں بنے گا، بلکہ ایمان ؛ صرف تبلیغ  کی محنت میں وقت لگانے سے ہی  بنے گا، تو اس کا یہ قول ہرگز  درست نہیں،  بلکہ کم علمی اور جہالت پر مبنی ہے، اور ایسا شخص نہ قرآن  کریم کی حقیقت کو صحیح سمجھا ہے،اور نہ دعوت و تبلیغ کی مبارک محنت کے مقصد کو۔ اس لیے  کہ اصل ایمان ہے ہی قرآن مجید میں، اور قرآن کریم کا پڑھنا اور سمجھنا ایمان میں اضافہ کرتا ہےجیسا کہ دعوت و تبلیغ میں نکل کر ایمانی صفات  کا مذاکرہ کرنا ایمان کو بڑھاتا ہے، بلکہ دعوت و تبلیغ کی محنت کا تو مقصد ہی امت کو قرآن سے جوڑنا، اور قرآن کی تعلیم کو عام کرنا اور قرآن والی زندگیاں اور معاشرہ قائم کرنا ہے۔ بلکہ  جیسے دعوت الی اللہ مقاصد نبوت میں سے ہے، اسی طرح قرآن حکیم کی آیات کی تلاوت بھی بعثتِ نبی ﷺ کے مقاصد میں سے ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

رَبَّنَا وَٱبْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ(البقرة:129)

’’اے پروردگار ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول ان ہی  میں کا کہ پڑھے ان پر تیری آیتیں اور سکھلاوے ان کو کتاب اور تہہ کی باتیں اور پاک کرے ان کو بیشک تو ہی ہے بہت زبردست بڑی حکمت والا۔‘‘

ان دونوں میں تقابل کرنا سراسر غلطی ہے۔

لہٰذا ایسا کہنے والے کو چاہیے کہ اپنے اس نظریے کی اصلاح کرے اور علماء سے سیکھ کر دین کا علم حاصل کرے (جو  مروجہ دعوت و تبلیغ کی محنت کا منشور  بھی ہے)۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102147

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں