بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی وارث کے لیے ترکہ میں تصرف کرنا دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے


سوال

 میرے والد محترم رضاۓ الہی سے اللہ پاک کو پیارے ہو گۓ ہیں ،ہم 4 بھائی اور دو بہنیں اور ایک والدہ ہیں ،مجھے میری ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں نے ابو کو بڑھا چڑھا کر صحیح غلط بول کر دل میں نفرت بھر دی اور مجھےگھر سے نکلوا دیا ،اب میں الگ رہتا ہوں اور میرا الگ کاروبار تھا اور الگ ہے ،مجھے معلوم کرنا تھا کہ میرے والد محترم نے رحیم یار خان کا ایک پلاٹ فروخت کیا تھا جو مجھے معلوم تھاکہ فروخت ہو گیا ہے ،میں نے کہا اس کا کیا ہوا تو میری امی اور 3 چھوٹے بہن بھائی کہنے لگے پلاٹ کے پورے پیسے ابو لے کر کھا گئے ہیں ،ہمیں صرف بیان دینا ہے ،میں خاموش ہو گیا والد صاحب کی انتقال والے دن جس نے وہ پلاٹ والد صاحب سے خریدا تھا  وہ بھی آیا ہوا تھا، اور مجھے کہا اپنا نمبر دو مجھے کچھ کام ہے میں نے اپنا نمبر دے دیا اور اس کا فون میرے پاس نہیں آیا ، ایک ہفتہ بعد میں نے فون کر کے پوچھا آپ نے کچھ بات کرنی تھی ،تو اس نے مجھے بتایا کہ آپ کے ابو سے پلاٹ میں نے لیا ہے ،13.25 لاکھ میں 8.25 لاکھ دے دئے ہیں 5 لاکھ بقایا ہیں ،پھر میں نے اپنی امی اور 3 چھوٹے بہن بھائیوں سے پوچھا کہ آپ سب نے مجھے جھوٹ کیوں بولا ،پھر کہتے ہیں کہ ہمیں پتا نہیں تھا، میں نے کہا اگر پتا نہیں تھا تو جھوٹ کیوں بولا، یہ کہتے کہ ہمیں پتہ نہیں ہے ،پھر امی نے کہا جو مجھے آپ کے والد نے کہا میں نے وہی کہا، میں نے امی کو کہا پھر آپ یہی بولتیں لیکن بہن بھائیوں نے جھوٹ کیوں بولا ،جب انہیں سب معلوم تھا امی نے کہا میرے کہنے پر بولا ،پھر میں خاموش ہو گیا ، کیا والدہ کے کہنے پر جھوٹ بولا جا سکتا ہے لیکن میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ ایک عورت 4 مردوں کو جہنم میں لے جائے گی وہ عورت ماں بہن بیوی اور بیٹی ہے اسی طرح 4 مرد باپ بھائی شوہر اور بیٹا ہے۔

اس لئے رہنمائی فرمائیں کہ مجھے اور میری ماں اور میرے بہن بھائیوں کو کیا کرنا چاہئے اور والد محترم کی جائیداد اور کاروبار میں کس کس کا حق ہے میرا حق ہے یا نہیں؟ اگر حق ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے، دوکان کرائے کی ہے،ابو کا درزی کا کاروبار تھا ،اور ابو نے کہا تھا کہ تم کپڑے کا کاروبار کرو گے، والد محترم کے انتقال سے 4 سے 5 مہینے پہلے والد محترم نے اپنی دوکان میں کام کرنے کی جگہ دی تھی اور کہا تھا جب تمھارا کام سیٹ ہو جائے تو کرایہ دینا اور کرایہ برابر تقسیم کرنا ،اب والد محترم الله پاک کو پیارے ہو گئے ہیں تو والدہ اور بہن بھائی کہتے ہیں کہ کرایہ دو، ورنہ نکلو اور مجھے کام نہیں کرنے دے رہے، والد محترم 6 اپریل کو الله کو پیارے ہوگئے ہیں اور کہتے ہیں ابو گئے اور ابو کی باتیں بھی چلی گئیں، اب ہم جو چاہیں گے ویسا ہو گا۔

ابو کی گاڑی سے منع کیا تھا کہ اسے بلاوجہ نہیں نکالنی لیکن نہیں مانے اور گاڑی کا ایکسیڈنٹ بھی کروا دیا اور خود مرتے ہوئے بچ گئے ہیں، میں نے اپنی ماں اور بہن بھائیوں کو کہا تھا کہ جہاں جہاں میرا حصہ بنتا ہے وہ چیز میری بغیر اجازت استعمال نہیں کر سکتے جب تک وضاحت نہ ہو جاۓ لیکن کسی نے نہیں مانی اور نہ ہی مان رہے ہیں۔ جو کچھ میرے والد محترم سے میری ماں اور بہن بھائیوں نے کروایا ہے اس کا گناہ ثواب کس کس کو ہو گا؟ اور جو شخص شریعت کے مطابق عمل نہ کرے اور عمل نہ کرواۓ اس کے بارے میں وضاحت فرمائی۔ ایک جگہ میں نے پڑھا ہے بڑا بھائی والد کی جگہ ہوتا ہے بڑے بھائی کی نافرمانی والد کی نافرمانی ہوگی یا نہیں ، پلاٹ کی بقایا رقم بھی میرے چھوٹے بھائیوں کو  مل چکی ہے،اور میرے ساتھ کسی قسم کی کوئی بات نہیں کرتے،کہتے ہیں کہ  جو کچھ کرنا ہو گا اور جب کرنا ہو گا تو بتا دیں گے ابھی ہمارے پاس ٹائم نہیں ہے۔

جواب

1)صورتِ  مسئولہ  میں  دیگر  ورثاء کی طرح سائل کا بھی  والد  صاحب کی جائیداد  میں حق و حصہ  ہے ،اگرچہ والد صاحب اپنی زندگی میں  سائل سے ناراض رہے،اور گھر اور کاروبار سے بھی الگ کر دیاتھا،بقیہ بہن بھائیوں کا آپس میں والد صاحب کی جائیداد  کو تقسیم کرنا اور سائل کو محروم کرنا سخت  گناہ ہے ۔قرآن  کریم اور احادیث مبارکہ میں میراث سے محروم کرنے والے کے لیے  جہنم اور رسوا کرنے والے عذاب کی وعید یں آئی ہیں۔ 

ابن ماجہ میں ہے :

"عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من فر من ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة"

 (کتاب الوصایا،ج:2،ص:902ط:دار احیاء الکتب العربیہ )

ترجمہ:"جس نے كسى وارث كى ميراث كاحصہ روکا اللہ تعالی قیامت کے دن جنت سے اس کاحصہ روکیں گے۔"

2)   مرحوم والد کے ترکہ کی تقسیم  کاشرعی  طریقہ یہ  ہے کہ مرحوم کے  حقوق  متقدمہ     یعنی تجہیز و تکفین کا  خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو80 حصوں میں تقسیم کر کےبیوہ کو 10 حصے ، ہر ایک بیٹے کو14 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 7حصے ملیں  گے ۔

صورت تقسیم یہ ہے :

میت: 8 / 80

بیوہ بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
17
101414141477

یعنی 100 فیصد میں سے بیوہ کو 12.5 فیصد ،ہر ایک بیٹے کو 17.5 فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 8.75 فیصد ملے گا ۔

3)سائل پر  دکان کا اب تک کا کرایہ تو لازم نہیں ہے ،البتہ آئندہ  اگر ورثاء سائل کو یہ دکان کرایہ پر دینا چاہیں تو سائل اپنے حصہ کے علاوہ  حسب معاہدہ ان کو  کرایہ ادا کرتے رہے جوان میں  ان کے حصوں کے اعتبار سے تقسیم ہو گا ۔

4) ترکہ تقسیم  ہونے تک تمام ورثاء میں مشترک ہوتا ہے ، کوئی ایک وارث دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغیرترکہ کی کسی چیز میں تصرف کا حق نہیں رکھتا ،لہذا سائل کی اجازت کے بغیر ترکہ میں سے کسی بھی چیز کا استعمال  دیگر ورثاء کے لیے جائز نہیں ہے ۔

الدر المختار ميں المنظومه المحبية    كے  حوالے سے  ہے:

"فليس للشريك أن يطالبه … بأجرة السكنى ولا المطالبه بأنه يسكن من الأول … لكنه إن كان في المستقبل۔"

(کتاب الشرکۃ ،ج:4،ص:337،ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے :

"ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره۔"

(کتاب الشرکہ ،ج:2،ص:301،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں