بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی عذر کی بنا پر مسجد کی جماعت چھوڑ کر اپنی جماعت کروانے کا بیان


سوال

 ہمارے مدرسے میں دوشعبے ہیں: ایک شعبہ حفظ (دارالقرآن) ، جبکہ دوسرا شعبہ کتب کا ہے، دونوں شعبوں کا ایک ہی دارالاقامہ ہے،  اورہمارے مدرسے کی اپنی ہی مسجد ہے جوکہ دارالاقامہ سے ایک دومنٹ کے فاصلہ پر ہے۔ شعبۂ کتب والے مسجد میں نماز باجماعت ادا کرتے ہیں، جب کہ شعبہ حفظ (دارالقرآن)کے بچے اپنے اساتذہ سمیت پورے سال اپنے ہی دارالاقامہ میں مسجدہی کی اذان سے نماز باجماعت ادا کرتے ہیں ، نگران شعبۂ حفظ(دارالقرآن) والوں کے مسجد میں نماز نہ پڑھنے کی دو وجوہات بتاتے ہیں:

1:ایک وجہ یہ ہے کہ شعبۂ حفظ(دارالقرآن)اور شعبۂ کتب کے اوقات نماز میں فرق ہے، دارالقرآن والے پہلے وقت میں پڑھتے ہیں اور کتب والے بعد میں پڑھتے ہیں۔

2:دوسری وجہ یہ بتاتے ہیں کہ شعبۂ حفظ والے اگر جائیں تو دارالقرآن کا نظام خراب ہوگا اور حفظ کے بچے مسجد کی صفائی کا بھی اہتمام نہیں کرتے ، اور دارالقرآن میں دو سو ڈھائی سو طلبہ میں سے 5060 اتنی  عمر کے طلبہ  ہیں جن پر نماز واجب ہے ۔

نوٹ :شعبان اور رمضان کے مہینے میں شعبۂ کتب کی چھٹیوں کی وجہ سے اکثر اوقات مسجد میں اذان ہوتی ہے، لیکن نماز باجماعت نہیں ہوتی،  صرف دارالقرآن والے اپنے دارالاقامہ میں باجماعت ادا کرتے ہیں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ شعبۂ حفظ(دارالقرآن)کے  طلبہ اور ان کے اساتذہ کا مسجد نہ جانا اور پورے سال دارالاقامہ میں نماز باجماعت ادا کرنا از روئے شرع درست ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ جامع مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے  کی اپنی فضیلت اور شان ہے ،جامع مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی فضیلت وثواب محلہ کی مسجد میں یا گھر میں باجماعت نماز پڑھنے سے پانچ سو گنازیادہ ہے،جیساکہ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا ارشاد ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "صلاة ‌الرجل ‌في ‌بيته ‌بصلاة ‌وصلاته ‌في ‌مسجد ‌القبائل ‌بخمس ‌وعشرين صلاة وصلاته في المسجد الذي يجمع فيه بخسمائة صلاة وصلاته في المسجد الأقصى بخمسين ألف صلاة وصلاته في مسجدي بخمسين ألف صلاة وصلاته في المسجد الحرام بمائة ألف صلاة."

(مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الصلوٰۃ،باب المساجدومواضع الصلوٰۃ،الفصل الثالث،ج:۱،ص:۲۳۴،ط:المکتب الإسلامی)

ترجمہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ آدمی کی نماز اپنے گھر میں ایک ہی  نماز کے برابر اور محلہ کی مسجد میں اس پچیس نمازوں کے برابر اور اس مسجد میں جہاں جمع ہوتا ہے ( جامع مسجدمیں) اس کی نماز پانچ سو نمازوں کے برابر اور مسجد ِ اقصیٰ ( یعنی بیت المقدس میں ) اور میری مسجد ( مسجد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ) اس کی نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجدِ حرام میں اس کی نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔‘‘

(مظاہر حق جدید،ج:۱،ص:۵۰۸،ط:دارالاشاعت کراچی)

 ایک روایت میں ہے کہ جو شخص جتنی دور مسافت سے مسجد آئے گا ،اس کو اتنا ہی زیادہ اجر ملے گا۔

مشکوٰۃ شریف  میں ہے:

"أعظم الناس أجرا في الصلاة أبعدهم فأبعدهم ممشى والذي ينتظر الصلاة حتى يصليها مع الإمام أعظم أجرا من الذي يصلي ثم ينام."

(کتاب الصلوٰۃ،باب المساجدومواضع الصلوٰۃ،الفصل الاول،ج:۱،ص:۲۲۰،ط:المکتب الإسلامی)

ترجمہ:’’نماز کا سب سے زیادہ اجر اس شخص کو ملتا ہے، جو باعتبار مسافت کے سب سے زیادہ دور ہو(یعنی جس شخص کا گھر مسجد سے جتنا دور ہوگا اور وہ گھر سے چل کر نماز کےلیے مسجد آئے گا اسے اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا)، اور جو شخص  نماز کے انتظار میں مسجد کے اندر( بیٹھا) رہتا ہے تاکہ امام کے ساتھ نماز پڑھے تواس کا ثواب اس شخص سے زیادہ ہے جو (تنہا)اپنی نماز پڑھ کر سوجائے۔

(مظاہر حق جدید،ج:۱،ص:۴۸۴،ط:دارالاشاعت کراچی)

لہذا بلاعذرِ شرعی (مثلاً:مرض،تیز بارش،خوف دشمن)جامع مسجد نہ جانا اور گھر میں یا کسی اور جگہ جماعت  کروانےکی عادت بنادینا مکروہ ہے ،صورتِ مسئولہ میں شعبۂ حفظ  کےنابالغ طلبہ کی مسجد کی  جماعت سے پہلے یا بعد میں دارالاقامہ میں جماعت کرانے کی گنجائش ہے،تاہم اساتذہ اور بالغ طلباء کےلیے دارالاقامہ میں مستقل جماعت کرانا اور مسجد کی جماعت کو چھوڑنادرست نہیں ہے؛کیونکہ اس میں مسجد کو ترک کرنے کا گناہ بھی ہے اور اس پر سخت وعید بھی ہےاورمسجد کی حق تلفی بھی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں پر سخت ناراض تھے،بلکہ ان کے گھروں کو جلانے کی خواہش کا بھی اظہار فرمایاتھا،اس لیے مسجد میں ہی جاکر جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں، اور نماز  کا وقت ایسا مقرر کریں کہ اس میں شعبۂ حفظ اور مدرسہ کے طلبہ سب ایک ساتھ نماز پڑھ سکیں۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"فإن صلى رجل في بيته فاكتفى بأذان الناس وإقامتهم أجزأه لما روي أن ابن مسعود - رضي الله تعالى عنه - صلى بعلقمة والأسود في بيت فقيل له ألا تؤذن فقال ‌أذان ‌الحي يكفينا وهذا بخلاف المسافر فإنه يكره له تركهما."

(کتاب الصلوٰۃ،باب الأذان،أذان المرأۃ،ج:۱،ص:۱۳۳،ط:دارالمعرفہ)

"المغنی لإبنِ قدامه" میں ہے:

"ويجوز فعلها في البيت والصحراء، وقيل: فيه رواية أخرى: أن حضور المسجد واجب إذا كان قريبا منه؛ لأنه يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "لا صلاة لجار المسجد إلا في المسجد". ولنا قول النبي صلى الله عليه وسلم:"أعطيت خمسًا لم يعطهن أحد قبلي: جعلت لي الأرض طيبة وطهورا ومسجدا، فأيما رجل أدركته الصلاة صلى حيث كان."

(كتاب الصلاة،باب الإمامة وصلاة الجماعة، فصل فعل صلاة ‌الجماعة ‌في ‌البيت والصحراء،ج:۲،ص:۱۳۱،ط: مكتبة القاهرة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فتسن أو تجب ... على ‌الرجال ‌العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج ... ’’قوله من غير حرج‘‘قيد لكونها سنة مؤكدة أو واجبة، فبالحرج يرتفع الإثم ويرخص في تركها ولكنه يفوته الأفضل بدليل أنه عليه الصلاة والسلام  قال لابن أم مكتوم الأعمى لما استأذنه في الصلاة في بيته:’’ ما أجد لك رخصة."

(کتاب الصلوٰۃ، باب الإمامہ،ج:۱،ص:۵۵۴،ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101613

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں