کسی مفتی صاحب نےیہ بات بتائی کہ اگر غالب گمان ہو کہ کوئی شے ناپاک ہے یا اُس پر ناپاکی لگ گئی ہے، لیکن کنفرم نہ ہو، تو آپ خود سے یہ سوال پوچھو کہ کیا میں قسم اُٹھا سکتا ہوں کہ یہ شے ناپاک ہے یا نہیں، یعنی اگر آپ یہ قسم اُٹھا سکتے ہو کہ "کہ اللہ تعالیٰ کی قسم یہ چیز ناپاک ہے یاناپاک ہوگئی" تو وہ چیز پھر ناپاک سمجھی جائے گی، اگر آپ قسم نہیں اُٹھا سکتے تو وہ چیز پاک ہے۔ اور اگر آپ تھوڑے سے بھی شش و پنج میں ہو کہ پتہ نہیں میں قسم اُٹھا بھی سکتا ہوں یا نہیں، یا آپ قسم اٹھانے میں تھوڑی سی بھی جھجھک محسوس کریں، یا ایک فیصد بھی یہ خیال ہو کہ پتہ نہیں قسم اٹھا سکتا ہوں يا نہیں تواس کا مطلب ہےکہ آپ قسم نہیں اُٹھاسکتے ، اور اب وہ شے پاک ہے، وہ ناپاک ہے ہی نہیں، اب اُس کے بارے میں مزید نہ سوچیں، کیا یہ قاعدہ درست ہے؟
پاکی ناپاکی امورِدیانات میں سےہے، اورامورِ دیانات کےمتعلق قاعدہ یہ ہےکہ جوشے اصلاً پاک ہو وہ پاک ہی سمجھی جائےگی جب تک یقین یاظنِ غالب سےیہ بات ثابت نہ ہو کہ یہ شے ناپاک ہوگئی ہے، ہاں یقین یاظن غالب سےمعلوم ہوجائےکہ یہ چیزناپاک ہوگئی ہےیاکوئی عادل مسلمان اس کےبارےمیں بتادےکہ یہ ناپاک ہےتوپھروہ ناپاک سمجھی جائےگی، اوراس پرناپاکی کےاحکام لاگوہوں گے۔
اورجوچیز ناپاک ہووہ ناپاک ہی سمجھی جائےگی جب تک یقین یاظنِ غالب سےیہ بات ثابت نہ ہو کہ یہ شے اب پاک ہوگئی ہے، جب یقین یاظن غالب سےمعلوم ہوجائےکہ یہ چیزپاک ہوگئی ہے یاکوئی عادل مسلمان اس کےبارےمیں بتادےکہ یہ پاک ہےتوپھروہ پاک سمجھی جائےگی اوراس پرپاکی کےاحکام لاگوہوں گے۔ مثال کےطور پر ایک چھوٹا سا حوض ہے جس میں قلیل مقدار میں پانی کھڑا ہے اور وہاں سےنجس جانورمثلاً کتے وغیرہ بھی گزرتےہیں، اب جب آپ اس حوض پروضوکرنےکےلیےآئےتوکسی عادل مسلمان نےبتایا کہ اس پانی میں کتے نے منہ ڈالا ہے یاآپ کویقین یا ظنِ غالب ہےکہ اس میں کتےنےمنہ ڈالاہوگا تو اب یہ پانی ناپاک کہلائےگا اوراس سےوضو کرنا جائزنہیں ہوگا۔
اس تفصیل سےمعلوم ہواکہ کسی شے کی پاکی یا ناپاکی میں یقین یاظن غالب یاعادل مسلمان کی خبرکا دخل ہے، قسم کااس میں کوئی دخل نہیں، لہذاقسم اٹھانےکی ضرورت نہیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وشرط العدالة في الديانات) هي التي بين العبد والرب (كالخبر عن نجاسة الماء فيتيمم)
(قوله: في الديانات) أي المحضة درر احترازا عما إذا تضمنت زوال ملك كما إذا أخبر عدل أن الزوجين ارتضعا من امرأة واحدة لا تثبت الحرمة، لأنه يتضمن زوال ملك المتعة فيشترط العدد والعدالة جميعا إتقاني."
(كتاب الحظر والإباحة، 346/6، ط:سعید)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"خبر الواحد يقبل في الديانات كالحل والحرمة والطهارة والنجاسة إذا كان مسلما عدلا ذكرا أو أنثى حرا أو عبدا محدودا أو لا."
(الباب الأول في العمل بخبر الواحد، الفصل الأول في الإخبار عن أمر ديني، 308/5، ط:دار الفکر)
وفیه أیضا:
"يجب أن يعلم بأن العمل بغالب الرأي جائز في باب الديانات، وفي باب المعاملات، وكذلك العمل بغالب الرأي في الدماء جائز، كذا في المحيط."
(کتاب الکراهیة، الباب الثاني في العمل بغالب الرأي، 313/5، ط:دار الفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144512100793
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن