بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی شخص کے انتقال کے بعد کسی وارث کا ترکہ تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنے کا حکم


سوال

میرے والد نے بیرون ملک محنت سے پیسہ کمایا اور پاکستان میں اپنی پہلی بیوی کو رقم بھیجتے رہے، جس سے اُن کی بیوی نے گھر تعمیر کیا ، پہلی بیوی کے انتقال کے بعد میرے والدصاحب نے دوسری شادی کی اوراپنی زندگی میں گھر کا بٹوارہ بھی کیا ، ہر بھائی بہن کو برابر برابر حصہ دیا ، اب ہم بہن بھایئوں میں سے کسی کا یہ کہنا کہ ہمیں تو باپ کی طرف سے حصہ ملا ہے ،ہماری ماں کی طرف سے نہیں ملا، کیا ایسا مطالبہ کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ کی ہر ایک چیز سے اس کے تمام ورثاء کا حق متعلق ہوجاتا ہےاور ہر ایک وارث کو ترکہ تقسیم کرنے اور اپنے حصے کے مطالبہ کا حق حاصل ہوتا ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی والدہ نے اپنے ترکہ میں اپنی ذاتی  کچھ چیزیں چھوڑی ہوں تو ان سے والدہ کے تمام ورثاء کا حق متعلق ہوگیا ہے اور ہر ایک وارث کو اپنے حصے کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے،باقی رہا وہ گھر جو سائل کے والد کی پہلی بیوی نے اس رقم سے تعمیر کیا تھاجو اس کو سائل کے والد نے بھیجی تھی اور بعد میں اس گھر کو سائل کے والد نے اپنی تمام اولاد کے درمیان برابر برابر تقسیم کردیا تھاتو اگر سائل کے والد نے اپنی بیوی کواس رقم کا مالک نہیں بنایا تھا بلکہ وہ رقم گھر کے اخراجات کے لیے بھیجی تھی یا گھر تعمیر کرنے کے لیے بھیجی تھی تو اس گھر کا مالک سائل کا والد تھا  اور جب سائل کے والد نے اپنی زندگی میں وہ گھر اپنی اولاد میں برابر برابر تقسیم کردیا ہےتویہ والد کی طرف سے اولاد کو ہبہ ہے،لہذا اگر تقسیم کرنے کے بعد والد نے ہر ایک کو اس کے حصے پر قبضہ بھی دے دیا  ہو تو ہر ایک اپنے حصے کا مالک ہے ،البتہ  سائل کے والد کی جانب سے یہ گھر اولاد میں تقسیم کرنے سے اس کی پہلی بیوی کے ورثاء کا حق اس پہلی بیوی کےذاتی  ترکہ سے ختم نہیں ہوا ہے،ان کو اپنی والدہ کے ترکہ سے حصے کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ مذکورہ گھر کے علاوہ مرحومہ کا اپنا ذاتی ترکہ ہو۔

فتاوی شامی  میں ہے :

"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها للعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض."

 (کتاب القسمة، 260/6،ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407102305

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں