بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی شاگرد کے رنگ و نسل کی وجہ سے اس کا مذاق اڑانا / استاذ کے مذاق اڑانے کی وجہ سے اگر شاگرد کے دل سے عزت ختم ہو تو شاگرد گناہ گار ہوگا؟


سوال

اگر کوئی استاد درس گاہ میں کسی طالب علم کے رنگ یا نسب کا مذاق اڑائے، اور اس طالبِ علم کو بُرا بھی لگتا ہو، مگر وہ ادب کی وجہ سے خاموش رہتا ہے،  تو کیا ایسا کرنا استاد کےلیے جائز ہے ؟ اور اس طالبِ علم کے دل سے غیر اختیاری طور پر استاد کی عظمت جو نکل جاتی ہے، اس طالبِ علم کو اس کا گناہ ملے گا؟

 

جواب

واضح رہے کہ کسی مسلمان کا مذاق اڑانا  یا مجلس میں اس کی کوئی ایسی بات کرنا جس سے لوگ اس پر ہنسیں، اور  اس شخص کی دل آزاری ہو، یا اس کی تحقیر وتوہین ہو، شرعاً جائز نہیں ہے، بلکہ گناہ ہے، چہ جائے کہ پھر وہ مذاق یا تمسخر صرف رنگ اور نسل کی بنیاد پر ہو؛ کیوں کہ حقیقت میں تو تمام انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں ہی ہیں، اور خود قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے  بیسیوں ارشادات میں اس سے منع فرمایا گیا، اوراگر کسی انسان کو دوسرے پر فضیلت دینی بھی ہے، تو اس کی بنیاد صرف اور صرف تقویٰ کو بنا یا گیا؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں کسی بھی انسان کو شرعاً اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی بھی انسان کی ذات یا اس کی رنگ و نسل کا مذاق اڑائے، چہ جائے کہ وہ پھر ایک استاذ ہو، جو معاشرہ کی نسلِ نو کا معمار شمار ہوتا ہے، اگر ایسی ہی مذاق اور خلافِ شرع کاموں کا ارتکاب کرکے معاشرہ کی نئی نسل کی تربیت کرے گا، اور اسی حالت میں انہیں تعلیم دے گا، تو وہ تعلیم اور تربیت خود ایک سوالیہ نشان بن جاتی ہے، آیا وہ تعلیم و تربیت ہے بھی یا نہیں؟مذکورہ فعل سےجس جس طالبِ علم کا دل دکھا ہو، استاذ ان طلباء سے معافی مانگیں، اور رب کے حضوربھی اپنےاس فعل پر توبہ و استغفارکریں، اور آئندہ اس عمل سے مکمل طور پر اجتناب کریں۔

نیز استاذ کے مذکورہ فعل کی وجہ سے اگر کسی شاگرد کے دل سےبے اختیاری طور پر  استاذ کی عظمت چلی جائے، اور یہ سب اس کے اختیار اور ارادے سے نہ ہو، تو اس صورت میں شاگرد کو اپنے اس بے اختیاری عمل کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ملے گا، تاہم پھر بھی شاگرد مذکورہ استاذ کے ساتھ عظمت و عزت والے طریقے سے ہی پیش آئے، اس کی بے عزتی کرنا یاقابلِ تذلیل رویہ سے پیش کرنا اس صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ."

(سورۃ الحجرات: 11)

ترجمہ:’’  اے ایمان والو نہ مردوں کو مردوں پر ہنسنا چاہیے،  کیا عجب ہے کہ (جن پر ہنستے ہیں) وہ ان (ہنسنے والوں) سے (خدا کے نزدیک) بہتر ہوں اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے کیا عجب ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو۔ اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا (ہی) برا ہے۔ اور جو (ان حرکتوں سے) باز نہ آویں گے تو وہ ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘

(از بیان القرآن)

اس آیت کی تفسیر میں مفتی  محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :

"مذکور الصدر آیتوں میں اشخاص و افراد کے باہمی حقوق و آداب معاشرت کا ذکر ہے، ان میں تین چیزوں کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ اول کسی مسلمان کے ساتھ تمسخر و استہزا کرنا، دوسرے کسی پر طعنہ زنی کرنا، تیسرے کسی کو ایسے لقب سے ذکر کرنا جس سے اس کی توہین ہوتی ہو یا وہ اس سے برا مانتا ہو۔ 

پہلی چیز سخریہ یا تمسخر ہے۔ قرطبی نے فرمایا کہ کسی شخص کی تحقیر و توہین کے لئے اس کے کسی عیب کو اس طرح ذکر کرنا جس سے لوگ ہنسنے لگیں اس کو سخریہ، تمسخر، استہزا کہا جاتا ہے اور یہ جیسے زبان سے ہوتا ہے ایسے ہی ہاتھوں پاؤں وغیرہ سے اس کی نقل اتارنے یا اشارہ کرنے سے بھی ہوتا ہے اور اس طرح بھی کہ اس کا کلام سن کر بطور تحقیر کے ہنسی اڑائی جائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سخریہ و تمسخر کسی شخص کے سامنے اس کا اسی طرح ذکر کرنا ہے کہ اس سے لوگ ہنس پڑیں اور یہ سب چیزیں بنصِ قرآن حرام ہیں۔

سخریہ کی ممانعت کا قرآن کریم نے اتنا اہتمام فرمایا کہ اس میں مردوں کو الگ مخاطب فرمایا عورتوں کو الگ، مردوں کو لفظ قوم سے تعبیر فرمایا؛ کیوں کہ اصل میں یہ لفظ مردوں ہی کے لیے وضع کیا گیا ہے اگرچہ مجازاً و تو سعاً عورتوں کو اکثر شامل ہوجاتا ہے اور قرآن کریم نے عموماً لفظ قوم مردوں عورتوں دونوں ہی کے لیے استعمال کیا ہے، مگر یہاں لفظ قوم خاص مردوں کے لیے استعمال فرمایا اس کے بالمقابل عورتوں کا ذکر لفظ "نساء" سے فرمایا اور دونوں میں یہ ہدایت فرمائی کہ جو مرد کسی دوسرے مرد کے ساتھ استہزا و تمسخر کرتا ہے اس کو کیا خبر ہے کہ شاید وہ اللہ کے نزدیک استہزا کرنے والے سے بہتر ہو، اسی طرح جو عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ استہزا و تمسخر کا معاملہ کرتی ہے اس کو کیا خبر ہے شاید وہی اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہو۔ قرآن میں مردوں کا مردوں کے ساتھ اور عورتوں کا عورتوں کے ساتھ استہزا کرنے اور اس کی حرمت کا ذکر فرمایا؛ حال آں کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ یا کوئی عورت کسی مرد کے ساتھ استہزا کرے تو وہ بھی اس حرمت میں داخل ہے، مگر اس کا ذکر نہ کرنے سے اشارہ اس طرف ہے کہ عورتوں اور مردوں کا اختلاط ہی شرعاً ممنوع اور مذموم ہے جب اختلاط نہیں تو تمسخر کا تحقق ہی نہیں ہوگا۔

حاصل آیت کا یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے بدن یا صورت یا قد و قامت وغیرہ میں کوئی عیب نظر آوے تو کسی کو اس پر ہنسنے یا استہزا کرنے کی جرات نہ کرنا چاہیے؛ کیوں کہ اسے معلوم نہیں کہ شاید وہ اپنے صدق و اخلاص وغیرہ کے سبب اللہ کے نزدیک اس سے بہتر اور افضل ہو۔ اس آیت کو سن کر سلف صالحین کا حال یہ ہوگیا تھا کہ عمرو بن شرجیل نے فرمایا کہ میں اگر کسی شخص کو بکری کے تھنوں سے منہ لگا کر دودھ پیتے دیکھوں اور اس پر مجھے ہنسی آجائے تو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی ایسا ہی نہ ہوجاؤں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ میں اگر کسی کتے کے ساتھ بھی استہزا کروں تو مجھے ڈر ہوتا ہے کہ میں خود کتا نہ بنادیا جاؤں(قرطبی)"

(از معارف القرآن: سورۂ حجرات، آیت: 11)

"یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْا-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ."

(سورۃ الحجرات: 13)

ترجمہ: ’’اے لوگوں! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیاہے، اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا؛ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے بڑا شریف وہی ہے، جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو، اللہ خوب جاننے والا پورا خبردار ہے۔‘‘

(از: بیان القرآن)

" وَ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖۙ-وَ لٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا."

(سورۃ الأحزاب: 5)

ترجمہ: ’’اورتم کو اس میں جو بھول چوک ہوجائے، تو اس سے تم کچھ گناہ نہیں، لیکن ہاں جو دل سے ارادہ کرکے کرو، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔‘‘

(از: بیان القرآن)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144408101893

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں