بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی صحابی کی تعریف کرتے ہوئے اسے میری جان کہنے کا حکم


سوال

کیا کسی عورت کے لیے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو اپنی جان کہہ کر تعریفی کلمات کہنا مناسب ہے، کہ فلاں صحابی میری جان ہیں؟ یا اس طرح کے الفاظ کا شاعری کے اندر استعمال کرنا ایک عورت کے لیے کیسا ہے ؟اگر وہ صحابہ کرام رضوان  اللہ علہیم اجمعین کے دور میں ہوتی تو کیا ایسے الفاظ ان کے سامنے بھی کہہ سکتی تھی ؟محرم رشتوں کے لیے جان کا لفظ  استعمال ہوتا ہے جیسے امی جان ابو جان ،کیا ایک لڑکی کے لیے صحابہ کو اس انداز میں بلانا جائز یا ادب کے دائرے میں آتا ہے؟ راہ نمائی  درکار ہے۔

جواب

واضح رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے محبت کرنا ایمان کا جزء اور ایمان  کی دلیل ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے محبت کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر لازم ہے،لہذامسلمان مردوعورت دونوں میں سے ہر ایک کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کا اظہار کرنا نہ صرف جائز بلکہ لازمی چیز ہے،البتہ محبت کا اظہار اسی طریقے پر کرنا چاہیے جو عام عرف میں مستحسن سمجھا جاتاہو،اس طریقے سے محبت کا اظہار کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے جو عام عرف میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں کسی عورت کا کسی صحابی سے محبت کے اظہار کے طور پر یہ کہنا کہ "وہ میری جان ہے" مناسب نہیں ،کیوں کہ یہ لفظ عام عرف میں صرف محارم رشتہ دار یا میاں بیوی  ایک دوسرے کے لیے استعمال کرتے ہیں ، کسی   دوسرے  کے لیے  اس  کے استعمال کو شرفاء کے عرف میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

نیز اگر مذکورہ عورت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں ہوتی تو اس  وقت کے عرف کے اعتبار سے تعظیم  ومحبت کے  جو بھی الفاظ رائج تھے وہی کہنے کی اجازت ہوتی۔

ترمذی شریف میں ہے:

"عن عبد الله بن مغفل، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «الله الله في أصحابي، لا تتخذوهم غرضا بعدي، فمن أحبهم فبحبي أحبهم، ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم، ومن آذاهم فقد آذاني، ومن آذاني فقد آذى الله، ومن آذى الله فيوشك أن يأخذه."

(أبواب المناقب،‌‌باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم،706/2،ط:رحمانية)

عمدۃ القاری میں ہے:

"لأن المقصود من الحديث الحث على حب الأنصار وبيان فضلهم لما كان منهم من إعزاز الدين وبذل الأموال والأنفس، والإيثار على أنفسهم، والإيواء والنصر وغير ذلك، قالوا: وهذا جار في أعيان الصحابة: كالخلفاء وبقية العشرة والمهاجرين، بل في كل الصحابة، إذ كل واحد منهم له سابقة وسالفة وغناء في الدين، وأثرحسن فيه، فحبهم لذلك المعنى محض الإيمان وبغضهم محض النفاق، ويدل عليه ما روي مرفوعا في فضل أصحابه كلهم: (من أحبهم فبحبي أحبهم ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم) . "

(كتاب الإيمان،باب علامة الإيمان حب الأنصار،152/1،ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144404100226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں