زید نے زمین فروخت کی، ٹرسٹ نے خرید کر مسجد تعمیر کر دی، کچھ ہی سالوں بعد اس کا ایک حق دار آیا، اور اب یہ ثا بت بھی ہوا ہے کہ زمین اسی حق دار مدعی کی تھی، تو اب شرعی حکم کیا ہے؟ اس کا مالک مدعی ہے، اس کے ساتھ مصالحت ہوئی ہے، تو اس کو زمین کا روپیہ دینا ہے، تو وہ کون ادا کرے، بائع یا مشتری؟ استحقاق کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
صورت مسئولہ میں جب ثابت ہوگیا کہ زمین زید کی نہیں تھی اور اس نے کسی اور کی زمین ٹرسٹ والوں کو فروخت کردی تو شرعًا یہ خرید وفروخت کا معاملہ اصل مالک کی اجازت اور رضامندی پر موقوف تھا ؛ لہٰذا اب اگر اصل مالک اس خریدوفروخت کے معاملے پر راضی ہے تو یہ معاملہ درست ہوجائے گا اور زید اس زمین کی مد میں وصول کردہ رقم اصل مالک کو لوٹائے گا ،لیکن اگر اصل مالک زید کے کیے ہوئے معاملے پر راضی نہیں ہے تو زید اور ٹرسٹ والوں کے درمیان کیا ہوا معاملہ فسخ ہوگیا، ایسی صورت حال میں ٹرسٹ والوں کا اصل مالک سے از سر نو خریدوفروخت کا معاملہ کرنا ہوگا اور اب جو قیمت طے ہوگی وہ ٹرسٹ والوں کے ذمہ ہے اور زید ٹرسٹ والوں کو ان سے وصول کی ہوئی رقم ادا کرنے کا پابند ہوگا ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"فصل في الفضولي مناسبته ظاهرة، وذكره في الكنز بعد الاستحقاق؛ لأنه من صوره. (هو) من يشتغل بما لا يعنيه فالقائل لمن يأمر بالمعروف: أنت فضولي يخشى عليه الكفر فتح. واصطلاحا (من يتصرف في حق غيره) بمنزلة الجنس (بغير إذن شرعي) فصل خرج به نحو وكيل ووصي (كل تصرف صدر منه) تمليكا كان كبيع وتزويج، وإسقاطا كطلاق وإعتاق (وله مجيز) أي لهذا التصرف من يقدر على إجازته(حال وقوعه انعقد موقوفا) وما لا يجيز له حالة العقد لا ينعقد أصلا."
(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، فصل فی الفضولی، 5/106/ سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144312100178
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن