بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کی گاڑی کرائے پر اٹھانا اور اس پر کمیشن لینا / قسطوں پر خرید و فروخت / بیع عینہ کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں :

1۔ ایک شخص گاڑی جو اس کی ملکیت میں نہیں ہے، کسی کو کرایہ پر دیتا ہے،  مثلا دس ہزار کرایہ پر، اور  گاڑی کے مالک سے کہتا ہے کہ آٹھ ہزار آپ کے، اور دو ہزار بطور کمیشن میرے ہوں گے، تو کیا اس طرح بطورِ کمیشن رقم لینا جائز ہے؟

2۔ موٹر سائیکل یا گاڑی وغیرہ قسطوں پر فروخت کرنا کیسا ہے؟ جیسا کہ آج کل گاڑی کے  شوروم میں  ہوتا ہے۔

3۔ ایک شخص شوروم جا کر مثلا بائیک قسطوں پر خریدتا ہے، جس کی کاغذی کاروائی مکمل کرتا ہے، لیکن بائیک / گاڑی لے کرنہیں جاتا، بلکہ اسی شوروم کے  مالک  کو نقد پر فروخت کردیتا ہے، تو کیا اس طرح خرید و فروخت شرعا جائز ہے؟

4۔ اسی طرح سے سونا چاندی کی قسطوں پر خریداری اور کاغذی کاروائی کرکے  اسی سونار کو  نقد پر فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کی شرعی حیثیت  بروکر کی ہے،  اور بروکروی  / کمیشن حلال ہونے کے لیے  مالک اور بروکر کے درمیان کمیشن پہلے سے طے  ہونا شرعا ضروری ہوتا ہے، لہذا  مسئولہ صورت  میں  پہلے سے طے شدہ کمیشن ( مثلا 2000 روپے ) مذکورہ شخص  کے لیے لینا جائز ہوگا۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال

 [تتمة]قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه ."

( كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ٦ / ٦٣، ط: دار الفكر)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"وأما أجرة السمسار والدلال فقال الشارح الزيلعي: إن كانت مشروطة في العقد تضم، وإلا فأكثرهم على عدم الضم في الأول، ولا تضم أجرة الدلال بالإجماع اهـ. وهو تسامح فإن أجرة الأول تضم في ظاهر الرواية والتفصيل المذكور قويلة، وفي الدلال قيل لا تضم والمرجع العرف كذا في فتح القدير اهـ. "

( كتاب البيوع، باب المرابحة و التولية، ٥ / ١٣٦، ط: دار الفكر)

2۔ قسطوں پر خریدوفروخت  جائز  ہونے کےلیے   درج ذیل  شرائط کی رعایت ضروری ہے:

الف۔  معاملہ متعین ہو یعنی سودا نقد کیا جارہا ہے یا ادھار۔

ب۔   مدت متعین ہو۔

ج۔  مجموعی قیمت (اور قسط کی رقم) متعین ہو۔

د۔  کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے، اگر معاملہ کرتے وقت یہ شرط لگائی گئی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

درر الحکام فی شرح مجلة الأحكام  میں ہے:

" (المادة ١٥٧) التقسيط تأجيل أداء الدين مفرقا إلى أوقات متعددة معينة. هذا التعريف هو تعريف التقسيط الشرعي. " 

( مقدمة في بيان الاصطلاحات الفقهية المتعلقة بالبيوع، المادة : ١٥٧، التقسيط تأجيل أداء الدين، ١ / ١٢٨، ط: دار الجيل)

رد المحتار علی الدر المختار  میں ہے:

"وفي شرح الآثار : التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ .والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

( كتاب الحدود، باب التعزير،٤ / ٦١، ط: دار الفكر )

3۔ سائل نے جو صورت  بتائی ہے اسے شریعت کی اصطلاح میں "بیعِ عینہ"  کہتے ہیں جوکہ ناجائز ہےاور سود خوری کا ہی ایک راستہ ہے، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے عقد کو رسوائی اور ذلت کا سبب قرار دیا ہے، جیسا کہ ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں بروایت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے کہ جب تک تم بیع عینہ کرتے رہوگے اور جانوروں کی دیکھ بھال میں لگے رہوگے اور زراعت میں گم ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ دوگے تو اللہ تم پر ذلت و رسوائی مسلط کردے گا، یہاں تک کہ تم دوبارہ دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔

لہذا اگر اس طرح کا عقد کرلیا  تو اسے فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے اور اللہ رب العزت سے اپنے اس عمل پر سچے دل سے فوری طور پر توبہ کرنا ضروری ہے۔

سنن أبي داود میں ہے:

"عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا تبايعتم بالعينة، وأخذتم أذناب البقر، ورضيتم بالزرع، وتركتم الجهاد، سلط الله عليكم ذلا لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم» "

( أبواب الإجارة، باب في النهي عن العينة، ٣ / ٢٧٤، رقم الحديث: ٣٤٦٢، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

مسند الإمام أحمد بن حنبل میں ہے:

" ٤٨٢٥ - حدثنا الأسود بن عامر أخبرنا أبو بكر عن الأعمش عن عطاء بن أبي رباح عن ابن عمر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إذا"، يعني، "ضن الناس بالدينار والدرهم، وتبايعوا بالعين واتبعوا أذناب البقر، وتركوا الجهاد في سبيل الله، أنزل الله بهم بلاء فلم يرفعه عنهم حتى يراجعوا دينهم".

( مسند عبد الله بن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، ٤ / ٤١٤، ط: دار الحديث - القاهرة)

سنن الدارقطني میں ہے:

" ٣٠٠٣ - ثنا يعقوب بن إبراهيم البزار , نا الحسن بن عرفة , نا داود بن الزبرقان , عن معمر بن راشد , عن أبي إسحاق السبيعي , عن امرأته أنها دخلت على عائشة رضي الله عنها فدخلت معها أم ولد زيد بن أرقم الأنصاري وامرأة أخرى , فقالت أم ولد زيد بن أرقم: يا أم المؤمنين إني بعت غلاما من زيد بن أرقم بثمانمائة درهم نسيئة , وإني ابتعته بستمائة درهم نقدا , فقالت لها عائشة: «بئسما اشتريت وبئسما شريت , إن جهاده مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قد بطل إلا أن يتوب»"

( كتاب البيوع، ٣ / ٤٧٨، ط: مؤسسة الرسالة، بيروت - لبنان)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

" (قوله: في بيع العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في فضل لا يناله بالقرض فيقول لا أقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما وقيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهما وللمشتري قرض عشرة. وقال بعضهم: هي أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة ويسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه وهو المقرض بعشرة ويسلمه إليه، ويأخذ منه العشرة ويدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة ولصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما، كذا في المحيط، وعن أبي يوسف: العينة جائزة مأجور من عمل بها، كذا في مختار الفتاوى هندية. وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا. وقال عليه الصلاة والسلام: «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم» قال في الفتح: ولا كراهة فيه إلا خلاف الأولى لما فيه من الإعراض عن مبرة القرض اهـ ط ملخصًا."

( باب الصرف. مطلب في بيع العينة، ٥ / ٢٧٣، ط: دار الفكر)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

" (و) فسد (شراء ما باع بنفسه أو بوكيله) من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد)  كل  (الثمن)  الأول.  صورته: باع شيئا بعشرة ولم يقبض الثمن ثم شراه بخمسة لم يجز وإن رخص السعر للربا.

و في الرد : (قوله : للربا) علة لقوله لم يجز: أي لأن الثمن لم يدخل في ضمان البائع قبل قبضه، فإذا عاد إليه عين ماله بالصفة التي خرج عن ملكه وصار بعض الثمن قصاصا ببعض بقي له عليه فضلا بلا عوض فكان ذلك ربح ما لم يضمن وهو حرام بالنص زيلعي. "

( باب البيع الفاسد، ٥ / ٧٣ - ٧٤، ط: دار الفكر)

4۔  مذکورہ طریقہ کار پر ادھار چیز خرید کر اسی مالک کو   اسی وقت کو نقد فروخت کرنا یعنی "بیع عینہ " سونا چاندی میں بھی جائز نہیں، نیز سونا یا چاندی کی ادھار خرید و فروخت  سود کی ایک قسم جسے شریعت کی اصطلاح میں" ربا نسیئہ "  کہا جاتا ہے؛ کو مستلزم ہونے کی وجہ سے جائز نہیں۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"٢٨٠٩ - وعن أبي سعيد الخدري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «الذهب بالذهب والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعير بالشعير، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلا بمثل، يدا بيد، فمن زاد أو استزاد فقد أربى، الآخذ والمعطي فيه سواء» ". رواه مسلم.

قال زين العرب: الربويات المذكورة في هذا الحديث ست، لكن لا يختص بهما، وإذا ذكرت ليقاس عليها غيرها (لمن زاد) ، أي: أعطى الزيادة وقدمه لأن الأمر باختياره أولى ("أو استزاد ") ، أي: طلب الزيادة (" فقد أربى ") ، أي: أوقع نفسه في الربا، وقال التوربشتي - رحمه الله - أي: طلب الربا وتعاطاه ومعنى اللفظ أخذ أكثر مما أعطاه، من ربا الشيء يربو إذا زاد، قال الطيبي - رحمه الله: لعل الوجه أن يقال إلى الفعل المحرم، لأن من اشترى الفضة عشرة مثاقيل بمثقال من ذهب فالمشتري أخذ الزيادة وليس بربا ("الآخذ والمعطي فيه ") ، أي: في أصل إثم الربا (" سواء ") . رواه مسلم) ."

( كتاب البيوع، باب الربا، ٥ / ١٩١٧، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

الدر المختار میں ہے:

"باب الصرف ... (هو) لغة الزيادة. وشرعًا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسًا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل)  أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحًا على الصحيح."

( كتاب البيوع، باب الصرف، ٥ / ٢٥٧، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100709

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں