بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی نے کچھ سامان خرید نے کے بعد لے جانا سے بھول گئے اس کاحکم


سوال

ایک دوکاندار سے کسی نے کچھ سامان خریدا اور ادائیگی کے بعد جاتے ہوئی سامان لے جانا بھول گئے اور  بظاہر ان کے آنے کا امکان نہیں تو ایسی چیز کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر    کسی نے کچھ سامان خریدا پھرادائیگی کے بعد  جاتے ہوئے سامان لے جانا   بھول گیاتھا،  تو اگر اس کے آنے کا امکان ہے تو اس سامان کو رکھ لے اور اگر آنے کا امکان نہیں اور سامان رکھنا بھی مشکل ہے تو وہ سامان فروخت کر دے اور رقم محفوظ رکھے اگر مالک آ گیا تو اس کو دے دے ورنہ اس کی نیت سے غریبوں کو صدقہ کر دے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( وعرف ) أي نادى عليها حيث وجدها وفي المجامع ( إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة ) والثمار ( كانت أمانة ) لم تضمن بلا تعد فلو لم يشهد مع التمكن منه أو لم يعرفها ضمن إن أنكر ربها أخذه للرد وقبل الثاني قوله بيمينه وبه نأخذ حاوي وأقره المصنف وغيره ( ولو من الحرم أو قليلة أو كثيرة ) فلا فرق بين مكان ومكان ولقطة ولقطة ( فينتفع) الرافع ( بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه إلا إذا عرف أنها لذمي فإنها توضع في بيت المال ) تاترخانية و في القنية لو رجا وجود المالك وجب الإيصاء ( فإن جاء مالكها ) بعد التصدق ( خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها ( أو تضمينه.(قوله: ولقطة ولقطة ) أي لا فرق بينهما أي في وجوب أصل التعريف ليناسب قوله إلى أن علم أن صاحبها لايطلبها؛ فإنه يقتضي تعريف كل لقطة بما يناسبها بخلاف ما مر عن ظاهر الرواية من التعريف حولاً للكل".

( کتاب اللقطة،ج:4،ص:278، ط: سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100524

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں