بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی منی خود نکالے تو اس کا حکم اوراس بیماری سے بچنے کے لیے طریقہ کار


سوال

اگر انسان اپنی منی خود نکالے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اور اگر اس کو اس کی عادت ہی پڑھ جاتی ہو تو اس کی یہ عادت دور کرنے کی کے لیے کیا  کرنا چاہیے؟اور تو بہ کس طرح ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ  مشت زنی کرنا ناجائز اور گناہ  کا کام ہے،قرآن و  احادیث میں اس فعلِ بد  پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" {وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ}"[المؤمنون:5 تا 8]

ترجمہ: اور جو اپنی شہوت کی جگہ کو تھامتے ہیں، مگر اپنی عورتوں پر یا اپنے ہاتھ کے مال باندیوں پر، سو ان پر نہیں کچھ الزام۔ پھر جو کوئی ڈھونڈے اس کے سوا سو وہی ہیں حد سے بڑھنے والے۔ (ترجمہ از شیخ الہند)

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی نور اللہ مرقدہ، اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"{فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰئکَ هُمُ الْعٰدُوْنَ}" یعنی منکوحہ بیوی یا شرعی قاعدہ سے حاصل شدہ لونڈی کے ساتھ شرعی قاعدے کے مطابق قضاءِ شہوت کے علاوہ اور کوئی بھی صورت شہوت پورا کرنے کی حلال نہیں، اس میں زنا بھی داخل ہے اور جو عورت شرعاً اس پر حرام ہے اس سے نکاح بھی حکمِ زنا ہے، اور اپنی بیوی یا لونڈی سے حیض و نفاس کی حالت میں یا غیر فطری طور پر جماع کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ یعنی کسی مرد یا لڑکے سے یا کسی جانور سے شہوت پوری کرنا بھی۔ اور جمہور کے نزدیک استمنا بالید یعنی اپنے ہاتھ سے منی خارج کرلینا بھی اس میں داخل ہے"۔

(از تفسیر بیان القرآن۔ قرطبی۔ بحر محیط وغیرہ) (معارف القرآن)

نیز کئی احادیث میں اس فعلِ بد پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی ٰ قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے ، اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے )۔

شعب الایمان  میں ہے:

’’عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". "تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا". قال البخاري في التاريخ."

( تحريم الفروج وما يجب من التعفف عنها،ج:4،ص:378،ط:دار الکتب العملیة)

إعلاء السنن میں ہے:

"عن أنس بن مالك قال:يجيء الناكح يده يوم القيامة ويده حبلى.قال المؤلف: دلالة الحديث علي الباب ظاهرة من حيث أن المستمني قد توعد، والوعيد لايكون إلا على ترك الواجب".

(ج:11،ص:263،ط:اشرفیة)

 فتاوی شامی   میں ہے:

"استدل (الزيلعي شارح الكنز) على عدم حله بالكف بقوله تعالى: {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية، وقال: فلم يبح الاستمتاع إلا بهما: أي بالزوجة والأمة اهـ  فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما اهـ قلت: فإن لم يوجد سند الأحاديث محتجًّا به فلايضر المستدل، فإن الدعوي ثابتة بالقرآن المجيد، وجعله صاحب الدر المختار مكروهًا تحريمًا."

(کتاب الصوم،‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده الفساد،ج:2،ص:394،ط:دار الفکر)

2-  جو شخص اس گناہ میں ملوث ہو  تو اس کے لیے اس بیماری سے بچنے کے لیے متعدد مشورے اور عملی اقدامات ہیں :

1- اس گناہ سے بچنے کا محرک یہ ہو کہ میں نے اللہ کے حکم کی پاسداری کرنی ہے اور اللہ کی ناراضی سے بچنا ہے۔

2- اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پہ عمل کرے اور شادی کر لے۔

3- مشت زنی اور خود لذتی کی طرف لے جانے والے خیالات اور وسوسوں سے  دور رہے، اپنے ذہن اور فکر کو دینی اور دنیاوی  مفید سر گرمیوں میں مشغول رکھے؛ کیوں کہ وسوسوں میں پڑ کر ان ہی میں گھِرتے چلے جانے سے  وسوسوں کا انسان پر تسلط قائم ہو جاتا ہے اور پھر بیماری عادت بن جاتی ہے اور اس سے خلاصی پانا مشکل ہو جاتا ہے۔

4- نظروں کی حفاظت کریں؛  کیوں کہ ہیجان انگیز تصاویر یا ویڈیوز دیکھنے  سے شہوت بھڑکتی ہے اور انسان حرام کام پر آمادہ ہو جاتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے:قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ آپ کہہ دیں مومنوں کو وہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں۔ [النور: 30]

5- مختلف قسم کی عبادات  اور بامقصد کاموں میں مصروف عمل رہیں اور گناہ  کے لیے فرصت ہی نہ چھوڑیں۔

6- مشت زنی اور خود لذتی سے جسمانی صحت پر رونما ہونے والے طبی نقصانات  کو ذہن میں اجاگر رکھیں کہ اس سے نظر کمزور ہوتی ہے، اعصاب ڈھیلے پڑتے ہیں اور عضو خاص بھی کمزور ہو جاتا ہے، اسی طرح کمر کا درد شروع ہو جاتا ہے، یا اسی طرح کے دیگر نقصانات اہل طب بیان کرتے ہیں ان سب کو ذہن نشین رکھیں۔ ایسی ہی نفسیاتی نقصانات مثلاً: ذہنی تناؤ اور ضمیر کی ملامت، ان سب نقصانات میں سے سب سے بڑھ کر یہ کہ نمازیں ضائع ہو جائیں گی؛ کیوں کہ  بار بار غسل کرنا پڑے گا یا غسل کرنے کو دل نہیں چاہے  گا خصوصًا جب سردیوں کا موسم ہو، اسی طرح روزہ خراب ہو جائے گا۔

7- اپنے آپ کی دی گئی غلط تسلیوں سے دور کریں؛ کیوں کہ کچھ نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ  اپنے آپ کو زنا یا لواط سے بچانے  کے لیے خود لذتی جائز ہے، حالانکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ انسان زنا یا لواطت  کے قریب جا ہی نہ سکتا ہو۔

8- ارادی قوت اور عزم مصمم  ہر وقت ساتھ ہو، اور یہ کہ اپنے آپ کو شیطان کے سامنے ڈھیر مت کرے، تنہائی سے  بچے ، مثلاً رات کو اکیلے مت سوئے، اور ویسے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (کوئی بھی شخص اکیلے رات مت گزارے) اسے امام احمد نے روایت کیا ہے  اور صحیح الجامع  (6919) میں بھی موجود ہے۔

9- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تجویز کردہ کار گر علاج اپنائے ، یعنی روزے رکھے، کیونکہ روزہ شہوانیت کو ماند کر دیتا ہے اور جنسی خواہش کو معتدل بنا دیتا ہے، تاہم غیر مناسب طریقے مت اپنائے کہ قسم اٹھا لے کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا ، یا نذر مان لے؛  کیوں کہ اگر اس نے دوبارہ یہی کام کر لیا تو یہ قسم توڑنے کی بنا پہ ایمان میں کمی کا باعث ہو گا ، اسی طرح ایسی ادویات مت استعمال کرے جو شہوت کو ٹھنڈا کر دیں؛  کیوں کہ ان سے طبی اور جسمانی نقصانات رونما ہو سکتے ہیں؛ کیوں کہ صحیح احادیث میں یہ بھی  منع ہے کہ انسان ایسی چیزیں کھائے جن سے شہوت کلی طور پر ختم ہو جائے۔

10- سوتے وقت سونے کے اذکار کی پابندی کرے، دائیں کروٹ پہ سوئے اور منہ کے بل اوندھا مت لیٹے؛  کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح لیٹنے سے منع فرمایا ہے۔

11- گناہوں سے دوری اور پاکدامنی کا دامن کبھی نہ چھوٹے؛  کیوں کہ حرام کاموں سے رکے رہنا  ہمارے لیے لازمی ہے؛ اگرچہ نفس چاہتا ہے کہ گناہ کرے۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ  جب نفس عفت اور پاکدامنی کا عادی ہو جائے تو پھر یہ انسان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے؛  کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص عفت چاہے اللہ تعالی اسے پاکدامنی عطا کر دیتا ہے اور جو اللہ تعالی سے تونگری چاہے تو اللہ تعالی اسے غنی فرما دیتا ہے اور جو صبر چاہے اللہ تعالی اسے صبر عطا کر دیتا ہے، اور کوئی شخص صبر جیسی نعمت عطا نہیں کیا گیا۔ ( بخاری مع الفتح: (9/146)

12- اگر انسان اس گناہ میں ملوث ہو بھی جائے تو فوری توبہ استغفار کر لے، نیکی کرے ، مایوسی اور اداسی کا شکار نہ ہو؛  کیوں کہ یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔

13- آخر میں یہ ہے کہ اللہ تعالی سے صدق دل کے ساتھ گڑگڑا کر دعا کر کے اس قبیح عادت سے  خلاصی کا علاج ہو سکتا ہے سب سے مؤثر علاج ہے؛  کیوں کہ اللہ تعالی دعا کرنے والے کی دعا سنتا ہے جب بھی وہ اللہ کو پکارتا ہے۔

3- توبہ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ  وضو کرے اوردو رکعت نماز صلوۃ التوبہ کی نیت سے پڑھے پھر اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کرخدا سے یہ عہد کرے کہ میں اب کبھی بھی یہ گناہ نہ کروں گا، پھر اس توبہ پر قائم رہے اور اس گناہ کے قریب نہ جائے اور خدا عزوجل سے اپنے گناہ کی بخشش اور معافی مانگے۔

توبہ کی شرائط:

1-  اس گناہ کو  فورًا  چھوڑدیں، اس سے الگ  ہوجائیں۔

  2-  اللہ تعالیٰ کے حضور ندامت اور شرمندگی کے ساتھ  اس گناہ کی معافی   مانگیں۔

   3-  آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کریں۔

4-  اگر گناہ حقوق العباد سے متعلق ہے تو متعلقہ شخص سے معافی بھی  مانگیں اوراگر اس کا کوئی مالی حق ہے تواس کو بھی ادا  کریں۔ اور اگر وہ گناہ حقوق اللہ سےمتعلق ہو مثلاً نماز  روزہ فوت ہوا ہے تو اس کو قضا  کریں،  فوت شدہ نمازوں اور روزوں کی صحیح تعداد یاد نہ ہو، تو غور و فکر سے کام لے کر تخمینہ متعین  کریں، پھر ان کی قضا  کرنے کا پورا اہتمام  کریں، بیک وقت نہیں  کرسکتے تو ہر نماز کے ساتھ ایک ایک نماز قضاءِ عمری کی پڑھ لیا  کریں، ایسے ہی متفرق اوقات میں روزوں کی قضا  کا اہتمام  کریں، فرض زکات ادا نہیں کی تو گزشتہ زمانے  کی زکات بھی یک مشت یا تدریجاً ادا  کریں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101734

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں