بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی ملک کا پرچم جلانا


سوال

کیا کسی ملک کا قومی پرچم جلانا جائز ہے ؟مدلل جواب سے نوازیں مہربانی ہوگی؟

جواب

ہر ایسا عمل جو منافرت و دشمنی کو ہوا دے شریعتِ مطہرہ اسے اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتی،  یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے معبودانِ باطلہ تک کو گالی دینے سے منع فرمایا ہے؛ کیوں کہ ان کو گالی دینا معبودِ بر حق  کو گالی دیے جانے کا سبب ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں کسی بھی ملک کا پرچم ںظر آتش کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

{وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} [الانعام: 108]

معارف القرآن از مفتی محمد شفیع عثمانی ( صاحب رحمہ اللہ ) میں ہے:

’’ترجمہ: اور تم لوگ برا نہ کہو  اُن کو جن کی یہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا، پس وہ برا کہنے لگیں گے اللہ کو بےادبی سے بدون سمجھے،  اسی طرح ہم نے مزین کردیا ہر ایک فرقہ کی نظر میں ان کے اعمال کو، پھر ان سب کو اپنے رب کے پاس پہنچنا ہے، تب وہ جتلا دے گا ان کو جو کچھ وہ کرتے تھے۔

معارف و مسائل

مثلاً ایک اصول یہ نکل آیا کہ جو کام اپنی ذات کے اعتبار سے جائز  بلکہ کسی درجہ میں محمود بھی ہو،  مگر اس کے کرنے سے کوئی فساد لازم آتا ہو، یا اس کے نتیجہ میں لوگ مبتلائے معصیت ہوتے ہوں وہ کام بھی ممنوع ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ معبودانِ باطلہ یعنی بتوں کو برا کہنا کم از کم جائز تو ضرور ہے، اور ایمانی غیرت کے تقاضہ سے کہا جائے تو شاید اپنی ذات میں ثواب اور محمود بھی ہو، مگر چوں کہ اس کے نتیجہ میں یہ اندیشہ ہوگیا کہ لوگ اللہ جل شانہ کو برا کہیں گے تو بتوں کو برا کہنے والے اس برائی کا سبب بن جائیں گے، اس لیے اس جائز کام کو بھی منع کردیا گیا۔

اس کی ایک اور مثال بھی حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی نہ دے، صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ یہ تو کسی شخص سے ممکن ہی نہیں کہ اپنے ماں باپ کو گالی دے، فرمایا کہ ہاں انسان خود تو ان کو گالی نہیں دیتا، لیکن جب وہ کسی دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دے اور اس کے نتیجہ میں وہ دوسرا اس کے ماں باپ کو گالی دے، تو اس گالی دلوانے کا سبب یہ بیٹا بنا، تو یہ بھی ایسا ہی ہے جیسے اس نے خود گالی دی۔

اسی معاملہ کی ایک دوسری مثال عہدِ رسالت میں یہ پیش آئی کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے فرمایا کہ بیت اللہ شریف زمانہ جاہلیت کے کسی حادثہ میں منہدم ہوگیا تھا تو قریشِ مکہ نے بعثت ونبو ّت سے پہلے اس کی تعمیر کرائی، اس تعمیر میں چند چیزیں بناءِ ابراہیمی کے خلاف ہوگئیں، ایک تو یہ کہ جس حصہ کو حطیم کہا جاتا ہے یہ بھی بیت اللہ کا جز ہے، تعمیر میں اس کو سرمایہ کم ہونے کی بنا پر چھوڑ دیا، دوسرے بیت اللہ شریف کے دو دروازے شرقی اور غربی تھے، ایک داخل ہونے کے لیے دوسرا باہر نکلنے کے لیے، اہل جاہلیت نے غربی دروازہ بند کرکے صرف ایک کردیا، اور وہ بھی سطح زمین سے بلند کردیا، تاکہ بیت اللہ شریف میں داخلہ صرف ان کی مرضی و اجازت سے ہوسکے، ہر شخص بےمحابانہ جاسکے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ بیت اللہ کی موجودہ تعمیر کو منہدم کرکے حضرت خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی تعمیر کے بالکل مطابق بنا دوں، مگر خطرہ یہ ہے کہ تمہاری قوم یعنی عام عرب ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں، بیت اللہ کو منہدم کرنے سے کہیں ان کے دلوں میں کچھ شبہات نہ پیدا ہوجائیں، اس لیے میں نے اپنے ارادہ کو ترک کردیا۔

ظاہر ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کو بناءِ ابراہیمی کے مطابق بنانا ایک اطاعت اور کارِ ثواب تھا، مگر اس پر لوگوں کی ناواقفیت کے سبب ایک خطرہ کا ترتب دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارادہ کو ترک فرما دیا، اس واقعہ سے بھی یہی اصول مستفاد ہوا کہ اگر کسی جائز بلکہ ثواب کے کام پر کوئی مفسدہ لازم آتا ہو تو وہ جائز کام بھی ممنوع ہوجاتا ہے۔

لیکن اس پر ایک قوی اشکال ہے، جس کو روح المعانی میں ابو منصور سے نقل کیا ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جہاد و قتال لازم فرمایا ہے، حال آں کہ قتال کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ مسلمان کسی غیر مسلم کو قتل کرنے کے ارادہ کرے گا تو وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے، اور مسلمان کا قتل حرام ہے، تو اس اصول پر جہاد بھی ممنوع ہوجانا چاہیے، ایسے ہی ہماری تبلیغ اسلام اور تلاوت قرآن پر نیز اذان اور نماز پر بہت سے کفار مذاق اڑاتے اور مضحکہ بناتے ہیں، تو کیا ہم ان کے اس غلط رویہ کی بنا پر اپنی عبادات سے دست بردار ہوجائیں گے۔

اس کا جواب خود ابو منصور نے یہ دیا ہے کہ یہ اشکال ایک ضروری شرط کے نظر انداز کردینے سے پیدا ہوگیا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ جائز کام جس کو لزومِ مفسدہ کی وجہ سے منع کردیا گیا ہے اسلام کے مقاصد اور ضروری کاموں میں سے نہ ہو، جیسے معبودانِ باطلہ کو برا کہنا، اس سے اسلام کا کوئی مقصد متعلق نہیں، اسی طرح بیت اللہ کی تعمیر کو بناءِ ابراہیمی کے مطابق بنانا اس پر بھی کوئی اسلامی مقصد موقوف نہیں، اس لیے جب اس پر کسی دینی مفسدہ کا خطرہ لاحق ہوا تو ان کاموں کو ترک کردیا گیا، اور جو کام ایسے ہیں کہ اسلام میں خود مقصود ہیں، یا کوئی مقصد اسلامی اس پر موقوف ہے اگر دوسرے لوگوں کی غلط روی سے ان پر کوئی مفسدہ اور خرابی مرتب بھی ہوتی نظر آئے تو ان مقاصد کو ہرگز ترک نہ کیا جائے گا، بلکہ اس کی کوشش کی جائے گی کہ یہ کام تو اپنی جگہ جاری رہیں اور پیش آنے والے مفاسد جہاں تک ممکن ہو بند ہوجائیں۔

یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ دونوں حضرات ایک جنازہ کی نماز میں شرکت کے لیے چلے، وہاں دیکھا کہ مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی اجتماع ہے، اس کو دیکھ کر ابن سیرین واپس ہوگئے، مگر حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ لوگوں کی غلط روش کی وجہ سے ہم اپنے ضروری کام کیسے چھوڑ دیں، نمازِ جنازہ فرض ہے اس کو اس مفسدہ کی وجہ سے ترک نہیں کیا جاسکتا، ہاں اس کی کوشش تابمقدور کی جائے گی کہ یہ مفسدہ مٹ جائے۔ یہ واقعہ بھی روح المعانی میں نقل کیا گیا ہے۔

اس لیے خلاصہ اس اصول کا جو آیتِ مذکورہ سے نکلا ہے یہ ہوگیا کہ ’’جو کام اپنی ذات میں جائز بلکہ اطاعت وثواب بھی ہو،  مگر مقاصدِ شرعیہ میں سے نہ ہو، اگر اس کے کرنے پر کچھ مفاسد لازم آجائیں تو وہ کام ترک کردینا واجب ہوجاتا ہے، بخلاف مقاصد شرعیہ کے کہ وہ لزوم مفاسد کی وجہ سے ترک نہیں کیے جاسکتے‘‘۔

اس اصول سے فقہاءِ امت نے ہزاروں مسائل کے احکام نکالے ہیں، فقہاء نے فرمایا ہے کہ کسی شخص کا بیٹا نافرمان ہو اور وہ یہ جانتا ہو کہ اس کو کسی کام کے کرنے کے لیے کہوں گا تو انکار کرے گا اور اس کے خلاف کرے گا جس سے اس کا سخت گناہ گار ہونا لازم آئے گا تو ایسی صورت میں باپ کو چاہیے کہ اس کو حکم کے انداز میں کسی کام کے کرنے یا چھوڑنے کو نہ کہے، بلکہ نصیحت کے انداز میں اس طرح کہے کہ فلاں کام کرلیا جائے تو بہت اچھا ہو، تاکہ انکار یا خلاف کرنے کی صورت میں ایک جدید نافرمانی کا گناہ اس پر عائد نہ ہوجائے (خلاصہ الفتاوٰی)‘‘۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201625

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں