بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی مسجد کے قریب محلہ نہ ہو اس مسجد میں اعتکاف میں نہ بیٹھنے کا حکم


سوال

جس مسجد کے قریب کوئی محلہ نہیں ہے،  اور اس میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے اس مسجد میں اگر اعتکاف میں کوئی نہ بیٹھے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

  صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مسجد ، مسجدِ شرعی ہونے کے باوجود اگر اس کے قریب کوئی محلہ نہیں ہے، کوئی ایک شخص بھی مسجد کےقریب رہائش پذیر نہیں ہے تو اس صورت میں اگر مذکورہ مسجد میں اعتکاف نہ ہورہا ہو تو کسی پر ملامت نہیں ، تاہم اگر کوئی ایک شخص بھی مسجد کے قریب رہائش پذیر ہو اور وہ  اعتکاف میں نہ بیٹھےتو وہ تارکِ سنت شمار ہوکرگناہ گار ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وسنة مؤكدة في العشر الأخير من رمضان أي سنة كفاية كما في البرهان وغيره لاقترانها بعدم الإنكار على من لم يفعله من الصحابة.

قوله:’’ أي سنة كفاية‘‘ نظيرها إقامة التراويح بالجماعة فإذا قام بها البعض سقط الطلب عن الباقين فلم يأثموا بالمواظبة على ترك بلا عذر، ولو كان سنة عين لأثموا بترك السنة المؤكدة إثما دون إثم ترك الواجب كما مر بيانه في كتاب الطهارة . قوله:’’ لاقترانها إلخ‘‘ جواب عما أورد على قوله في الهداية والصحيح أنه سنة مؤكدة ’’لأن النبي - صلى الله عليه وسلم - واظب عليه في العشر الأواخر من رمضان‘‘ والمواظبة دليل السنة."

(کتاب الصوم،باب الاعتكاف،ج:2،ص:442،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں