بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو فلیٹ دلوایا اور کہا منافع آدھا آدھا کرلیں گے


سوال

1۔ہمارے ایک جاننے والے دوست بلڈر ہیں، مکانات بنانا  بیچنا کرتے ہیں،انہوں نے مجھے کہا کہ ان کے ایک دوست کا فلیٹ بک کروایا ہے،سترہ لاکھ(1700000) ادائیگی کی ہوئی ہے،کمپنی نے کچھ ناگریز وجوہات کی بنا پر کام روک دیا تھا،اب کام شروع کیا ہے ،لیکن مہنگائی کی وجہ سے قیمت زیادہ کردی ہے؛لہذا میرے  دوست جنہوں نے فلیٹ بک کروایا تھا اسے واپس کرنا چاہتے ہیں،میں  نے کمپنی سے کچھ بارکیننگ کرکے کم کرائے ہیں،یہ فلیٹ آپ لے لیں،کمپنی کو انتالیس لاکھ اور فلیٹ والے کو ساڑھے اٹھارہ لاکھ روپے دینے ہیں،کمپنی چار ماہ میں ستمبر یا اکتوبر  2019 میں   فلیٹ ہینڈ  اوور کردے گی اور اس کے فروخت پر آٹھ لاکھ  منافع متوقع ہے،ہم دونوں  آدھا  آدھا (٪50٪ 50) کرلیں گے ۔

2۔میں نے کچھ لالچ کی ،میرے  پاس بچیوں کی شادیوں کے لئے رقم تھی تو میں نے کمپنی کو انتالیس لاکھ اور فلیٹ مالک کو سترہ لاکھ ایک  ماہ میں یعنی جون 2019 میں ادا کردئیے، کچھ ایسا ہوا کہ کمپنی نے کام سلو کردیا ، اب 32 مہینے بعد کمپنی فلیٹ ہینڈ اوور کررہی ہے؛ لھذا میں نے پچاس ہزار ٹرانسفر فیس دے  کر  فلیٹ اپنے نام کروالیا اور  ایک لاکھ پچاس ہزار بقایا فلیٹ کے مالک  کو ادا کردئیے، اس طرح کل اٹھاون لاکھ روپے کی ادائیگی ہوگئی۔

3۔2020 میں دو بچیوں کی شادی کی ،نہ جانے کیسے کیسے ادھار سدھار کرکے کی اور اس پورے 32 ماہ میں بری طرح پریشان ہی رہا۔

جن صاحب نے یہ فلیٹ دلوایا تھا ان کا ایک روپیہ بھی نہیں لگا ہے، تمام رقم میری بلاک ہوئی ہےاور جو چار ماہ میں آدھا آدھا منافع میں سے کرنے کی بات کی تھی وہ نہیں ہوئی ؛کیوں کہ چار ماہ میں تو کچھ  ہوا ہی نہیں،اب اس فلیٹ کو بیچنے کی صورت میں بلڈر صاحب کا کیا حق بنتا ہے؟چار ماہ والی شرط تو ختم ہوگئی اب کیا ہونا چاہیے؟

وضاحت :مذکورہ بلڈر نے اپنے دوست کا  جو فلیٹ سائل کو دلوایا  اس فلیٹ   کا بلڈر کوئی اور ہے،یہ شخص پراپرٹی ڈیلر ہےاس نے سائل کو یہ  فلیٹ دلوایا لیکن مکمل ادائیگی سائل نے کی۔

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص(پراپرٹی خریدنے بیچنے والا) جس نے سائل کو فلیٹ دلوایا اس نے     اس معاملے میں صرف یہ کردار ادا کیا کہ سائل کو اس فلیٹ کی بابت تفصیلات بتائیں اور ڈسکاؤنٹ کرکے  فلیٹ سائل کو دلوایا، فلیٹ کا  خریدار سائل ہے اور اس  کی مکمل ادائیگی  بھی سائل نے خود کی، ایسی صورت میں  اس شخص کی حیثیت دلال(کمیشن ایجنٹ)کی ہے ،لیکن اس معاملہ میں اس   کا یہ شرط لگانا کہ  جو منافع ہوگا آدھا  آدھا کرلیں گے یہ شرط فاسد ہے ،اس شرط کی وجہ سے سائل اور مذکورہ شخص کے درمیان معاملہ فاسد ہوگیا ، اب حکم یہ ہے کہ وہ فلیٹ سائل کا ہے ،مذکورہ  شخص اس میں شریک نہیں ،البتہ   مذكوره شخص اجرت مثل كا حق دار هے،سائل کو چاہیے کہ مذکورہ شخص کو اس طرح کا فلیٹ دلوانے کا  جو عام طور  پر  مارکیٹ میں کمیشن ہوتا ہے وہ دے دے۔

درر الحكام فی شرح مجلۃ الأحكام میں  ہے:

[ ‌‌(المادة 43) المعروف عرفا كالمشروط شرطا]

"المعروف عرفا كالمشروط شرطا وفي الكتب الفقهية عبارات أخرى بهذا المعنى " الثابت بالعرف كالثابت بدليل شرعي " و " المعروف عرفا كالمشروط شرعا " و " الثابت بالعرف كالثابت بالنص والمعروف بالعرف كالمشروط باللفظ، وقد سبق لنا أن عرفنا العرف والعادة. فإليك الأمثلة على هذه القاعدة: لو اشتغل شخص لآخر شيئا ولم يتقاولا على الأجرة ينظر للعامل إن كان يشتغل بالأجرة عادة يجبر صاحب العمل على دفع أجرة المثل له عملا بالعرف والعادة، وإلا فلا."(١/ 51)ط:دارالجيل

فتاوی شامی میں هے:

"وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن ‌أجرة ‌السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(کتاب الاجارۃ،مطلب فی اجرۃ الدلال،ج6،ص63،ط:سعید)

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:

"الاجیر المشترک لا یستحق الاجرۃالا بالعمل."

(الکتاب الثانی فی الاجارۃ،الباب الاول فی الضوابط العمومیة،المادۃ424،ج1،ص189،ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100205

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں