زید سعودی عرب میں مقیم ہے اور الیکٹریشن کا کام کرتا ہے، اس کا ایک سعودی دکاندار سے زبانی معاہدہ ہے کہ وہ کسی کے یہاں بھی کام کرنے جائے گا تو 30 فیصد دکاندار اور 70 فیصد وہ خود رکھے گا، اب دکاندار حساب کرتے وقت متعین حصے سے زیادہ لے لیتا ہے، تو کیا زید ایسا کر سکتا ہے کہ وہ کہیں پر کام کرنے جائے اور دکاندار کو اطلاع نہ کرے تاکہ جو بھی دکاندار نے زیادہ رقم لی ہے وہ بھی اسی کے بقدر لے لے، جب کہ وہ اپنے سارے خرچ خود اٹھاتا ہے اور کسی طرح کے نقصان کی بھرائی بھی خود کرتا ہے؟ اگر یہ غلط ہے تو وہ اپنا حق کس طرح لے؟
بصورتِ مسئولہ اگر زید کو الیکٹریشن کا کام مذکورہ دوکاندار اور اس کے نام کے توسط سے ملتا ہے اور مذکورہ دوکان دار ہی اسے کام کےلیے بھیجتا ہے یعنی اصل ذمہ داری اس دوکان دار کی ہوتی ہے تو دوکاندار کے لئے اپنی طے شدہ کمیشن لینا جائز ہے اور اس متعین شدہ کمیشن سے زیادہ لینا حق تلفی اور شرعاً ناجائز ہے،اس صورت میں جب کہ دوکاندار نے اپنے کمیشن سے زیادہ لیا ہو زید اپنے حق کے بقدر دوکان دار کا حق روک سکتا ہے۔
"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية".
(كتاب الاجارة، ج:4، ص:409، ط:مكتبه رشيديه)
فتاوی شامی میں ہے:
"إن دلني على كذا فله كذا فدله فله أجر مثله إن مشى لأجله".
(كتاب الاجارة، ج:6، ص:95، ط:ايج ايم سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144110201743
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن