کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ دو دوست ہیں جو ایک حجرے میں ایک دوسرے کے ساتھ ملتے رہتے ہیں، ابھی ان دونوں کی آپس میں کسی بات پر لڑائی ہوئی، جس کے بعد ایک دوست نے دوسرے دوست سے کہا: اگر آپ یہاں موجود تھے اور میں یہاں آگیا تم میری بیوی مجھ پر طلاق ہو۔
نوٹ: جس بندے نے شرط لگائی ہے اگر وہ بندہ پہلے سے موجود ہو اور وہ دوسرا بندہ آگیا تو اُس صورت میں پھر کیا جواب ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اس جملے "اگر آپ یہاں موجود تھے اور میں یہاں آگیا تم میری بیوی مجھ پر طلاق ہو۔" کے کہنے کی صورت میں اگر کہنے ولا شخص ایسی حالت میں آیا کہ وہ شخص وہاں موجود ہو تو اس کی بیوی کو ایک طلاقِ رجعی واقع ہو جائے گی، عدت (یعنی اگر حمل نہ ہو تو تین ماہواریوں) میں رجوع کرنے کا اختیار ہوگا، اور آئندہ کے لیے دو طلاق کا اختیار ہوگا۔
البتہ جب اس نے یہ جملہ کہا، اس وقت وہ دونوں وہاں موجود تھے یا کہنے والا وہاں پہلے سے موجود تھا اور دوسرا شخص وہاں آگیا تو طلاق واقع نہ ہوگی، اس لیے کہ کہنے والے کے آنے کی شرط نہیں پائی گئی۔
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (3/ 121):
"وَلَوْ قَالَ لَهَا: إنْ أَتَيْت فَهُوَ عَلَى الْوُصُولِ قَصَدَتْ الْخُرُوجَ إلَى مَنْزِلِهِ أَوْ لَمْ تَقْصِدْ."
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4/ 338):
"ولو قال: إن لم آتك غدًا في موضع كذا فعبدي حر، فأتاه فلم يجده فقد برّ، إنما هذا على إتيان ذلك الموضع."
الفتاوى الهندية (1/ 430):
"رجل قال لغيره: إن لم آتك غدًا إن استطعت فامرأته طالق ولم يمرض ولم يمنعه سلطان ولا غيره ولم يجئ أمر لايقدر معه على إتيانه فلم يأت حنث في يمينه."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144202201203
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن