بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کام کے کرنے پر کافر ہوجانے کی قسم کھانا اور اس قسم کو توڑ دینا


سوال

میں نے قسم کھائی تھی کہ میں فلانہ کام کروں آئندہ تو میں کافر ہو جاؤں،  لیکن میں نے عرصے بعد بھول کر وہ کام کر لیا  تو کیا میں نعوذ باللہ  کافر ہو گئی  ہوں؟اور میں نے فورًا  کلمہ  بھی  پڑھ  لیا تھا  جب  یاد  آیا  اور  اس  سے  نکاح  پہ کوئی اثر تو نہیں ہوا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں مذکورہ جملہ  کہنے  کے بعد   بھول سے وہ کام کرلینے سے   آپ دائرۂ  اسلام سے خارج نہیں ہوئیں ہیں، البتہ  قسم ٹوٹ جانے کی وجہ سے قسم کا کفارہ ادا کرنا لازم  ہوگا  ، اور احتیاطاً تجدیدِ ایمان کے ساتھ تجدیدِ نکاح (دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کا ایجاب وقبول ) بھی کرلینا چاہیے، اور آئندہ اس قسم کی قسمیں  اٹھانے  سے  بالکل اجتناب کریں۔

 قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دیں  یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دیں ( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم ) اور اگر جَو دیں تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دیں،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دیں۔ اور اگر آپ کی مالی حالت ایسی ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتی ہیں اور نہ کپڑے دے سکتی  ہیں تو مسلسل تین روزے رکھ لیں۔

بہشتی زیور میں ہے:

"مسئلہ:  یوں کہا اگر فلانا کام کروں تو بے ایمان ہو کر مروں مرتے وقت ایمان نہ نصیب ہو بے ایمان ہو جاؤں یا اس طرح کہا اگر فلانا کام کروں تو میں مسلمان نہیں تو قسم ہو گئى اس کے خلاف کرنے سے کفارہ دینا پڑے گا اور ایمان نہ جائے گا۔"

(حصہ سوم ، ص: 145، قسم کھانے کا بیان، ط: توصیف پبلیشر)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"سوال: شخصے حلف کرد کہ بر زید ظلم وحق تلفی او نخواہم کرد اگر کنم پس من کافر و از شفاعت شفیع المذنبین بریم، پس اگر بر زید ظلم وحق تلفی او کند بموجب یمین خود کافر گرد و از شفاعت شفیع المذنبین بروخواہد شد یا نہ؟

(الجواب) این قسم ست کہ بصورتِ حنث کفارہ بر لازم شود، درکفر او بصورت حنث اختلاف است واضح انست کہ کافر نہ شود۔"

(12 /35، باب الیمین، ط: دارالاشاعت)

«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» (3/ 8):

"و لو قال: إن فعل كذا ‌فهو ‌يهودي أو نصراني أو مجوسي أو بريء عن الإسلام أو كافر أو يعبد من دون الله أو يعبد الصليب أو نحو ذلك مما يكون اعتقاده كفرا فهو يمين استحسانا والقياس أنه لا يكون يمينا وهو قول الشافعي. وجه القياس أنه علق الفعل المحلوف عليه بما هو معصية فلا يكون حالفا كما لو قال إن فعل كذا فهو شارب خمرا أو آكل ميتة.

وجه الاستحسان أن الحلف بهذه الألفاظ متعارف بين الناس فإنهم يحلفون بها من لدن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى يومنا هذا من غير نكير ولو لم يكن ذلك حلفا لما تعارفوا لأن الحلف بغير الله تعالى معصية فدل تعارفهم على أنهم جعلوا ذلك كناية عن الحلف بالله - عز وجل - وإن لم يعقل.

وجه الكناية فيه كقول العرب لله علي أن أضرب ثوبي حطيم الكعبة إن ذلك جعل كناية عن التصدق في عرفهم وإن لم يعقل وجه الكناية فيه كذا هذا، هذا إذا أضاف اليمين إلى المستقبل فأما إذا أضاف إلى الماضي بأن قال هو يهودي أو نصراني إن فعل كذا لشيء قد فعله فهذا يمين الغموس بهذا اللفظ ولا كفارة فيه عندنا لكنه هل يكفر؟ لم يذكر في الأصل وعن محمد بن مقاتل الرازي أنه يكفر لأنه علق الكفر بشيء يعلم أنه موجود فصار كأنه قال هو كافر بالله وكتب نصر بن يحيى إلى ابن شجاع يسأله عن ذلك فقال لا يكفر وهكذا روي عن أبي يوسف أنه لايكفر و هو الصحيح؛ لأنه ما قصد به الكفر و لا اعتقده و إنما قصد به ترويح كلامه و تصديقه فيه و لو قال: عصيت الله إن فعلت كذا أو عصيته في كل ما افترض علي فليس بيمين؛ لأن الناس ما اعتادوا الحلف بهذه الألفاظ."

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144212200021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں