بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معاف کروادینے کی نیت سے کسی کا مال چوری کرنا


سوال

اگر کسی کو معلوم ہے کہ حرام مال اس کے مالک کوواپس کرنا ضروری ہے ،  اس نے اس بنیاد پر کسی کا مال چوری کیا کہ بعد میں معاف کروالوں گا ،اب اس نے چوری کی اور بعد میں چوری کا مال معاف کروالیا اور اس نے معاف بھی کردیا ۔تو کیا اب بھی چوری کرنے والے کے ذمے واجب ہے کہ وہ چوری کا مال واپس کرے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اس نیت سے بھی کسی کا مال چرانا کہ بعد میں اس سے معاف کروالوں گا یہ عمل بھی ناجائزہے، اس نیت کے ساتھ بھی چوری کرنا  گناہ کبیرہ ہے ، اور کسی کے حق کو ناجائز طور پر لینا ہے،اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ معاف کرواسکے گا!البتہ اگر کوئی آدمی کسی کا مال چرانے کے بعد توبہ تائب ہوجاتا ہے اور صاحب حق کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے اس سے وہ حق معاف کروالیتا ہے اور صاحبِ حق اپنی رضا وخوشی سے اپنا حق معاف کردیتا ہے تو یہ حق معاف ہوجائے گااور اب اس شخص کے ذمہ اس کی ادائیگی شرعاً واجب نہیں ہے۔البتہ ایسے شخص پر لازم ہے  کہ آئندہ اس طرح کے عمل سے اجتناب کرے۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه إن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولا ينتهب نهبة ذات شرف يرفع الناس إليه أبصارهم فيها حين ينتهبها وهو مؤمن ولا يغل أحدكم حين يغل وهو مؤمن فإياكم إياكم" .

(مشکوۃ المصابیح،باب الکبائر وعلامات النفاق،ص:17،ط:قدیمی)

ترجمه:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا، شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان نہیں رہتا اورچوری کرنے والا جب چوری کرتا ہے تو اس کا ایمان باقی نہیں رہے،اور  چھینا جھپٹی  کرنے والا جب چھینا جھپٹی کرتا ہے اور لوگ اس کو (کھلم کھلا) چھینا جھپٹی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں (لیکن خوف و دہشت کے مارے بے بس ہو جاتے ہیں اور چیخ و پکار کے علاوہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے) تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا پس تم (ان گناہوں سے ) بچو ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

[كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:5، ص:99، ط:سعيد]

درر الحکام فی  شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"إذا ‌تم ‌الصلح فليس لواحد من الطرفين فقط الرجوع."

(الكتاب الثاني عشر حق  الصلح والابراء،الباب الرابع في بيان الصلح،56/4،ط:دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101319

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں