بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کا جرم چھپانا


سوال

میری بہن ہندہ کی شادی زید سے ہوئی اور 14 سال گزر گئے شادی کے 4 یا 5 سال بعد ہندہ کو بکر سے پیار ہو جاتا ہے ،14 سال بعد بکر زید کو قتل کروا دیتا ہے اور ہندہ بکر کا ساتھ دیتی ہے،اب ہندہ حوالات میں ہے اور بکر ملک سے باہر ہےجس کو پتہ نہیں پولیس پکڑتی ہے یا نہیں۔ زید کے بھائی کا ابھی تک کہنا ہے کہ ہم دونوں کو معاف نہیں کریں گے۔کیوں کہ زید ،ہندہ اور ہمارا خالہ زاد اور تایا زاد بھائی بھی تھا تو شاید زید کے بھائی ہندہ کو اپنی خالہ اور چچا کی وجہ سے معاف بھی کر دیں۔لیکن وہ چاہتے ہیں کہ بچے وہ اپنے پاس رکھیں۔اب پاکستان کے قانون کے تحت وکیل نے بتایا کہ ہندہ بری ہو سکتی ہے اور بچے بھی قانون کے تحت لے سکتی ہے اور شوٹر اپنا بیان بھی شاید واپس لے لیں کہ ہندہ ملوث نہیں ہے،اب سوال یہ ہے کے بھائی ہونے کی وجہ سے  کیا ہم ہندہ کو بری کروائیں یا نہیں،یا ہم زید کے بھائیوں پر چھوڑ دیں جو وہ چاہیں،یا بری کروانے کے بعد بکر سےیا کسی اور سے شادی کروا دیں،یا ہم بھائی خود زید کے بھائیوں کے ساتھ مل کر حق کا ساتھ دیں۔ اسلام کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ ہندہ کے بھائیوں کو کیا کرنا چاہیے کہ وہ اللہ پر نتیجہ چھوڑ کر رہا کروا دیں یا وکیل کے ذریعے خود سزا دلوائیں اس گناہ کا حصہ نہ بنیں اور اس گناہ کو قبر میں ساتھ نہ لے کر جائیں اور دونوں بھائی اپنی قبر بھاری نہ کریں۔جب کہ واقعی ہندہ ملوث ہے اور ہم بھائیوں کے مطابق ہندہ توبہ کر کے اگلی ساری زندگی نیکوں میں گزارنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

جواب

اگر مقتول کے ورثاء ہندہ کو معاف کردیتے ہیں تو یہ ان کی صوابدید پر ہے،لیکن اگر وہ معاف نہیں کرتے  جبکہ ہندہ واقعی اپنے شوہر کے قتل  میں ملوث تھی توجھوٹی گواہی یا کسی اور کےجھوٹے اقرار /بیان کے ذریعہ ہندہ کا جرم چھپانا جائز نہیں ہے،آپ اگرچہ ہندہ کے بھائی ہیں لیکن اصلاح معاشرہ کے لیے جرم کرنے والوں کو سزا ملنا ضروری ہے،مقتول کے ورثاء کو انصاف  ملنے سے روکنے کے لیے ناجائز تدابیر اختیار کرنا ایک علیحدہ جرم ہے۔

باقیلڑکوں کی عمر جب  تک سات سال اور لڑکی کی عمر نو سال  نہ ہوجائے اس وقت  تک بچوں کی پرورش کا حق بچوں کی والدہ کو حاصل ہے بشرطیکہ وہ جیل میں نہ ہو اور  دوسری جگہ  بچوں کے کسی غیر محرم سےشادی نہ کرلے، اوروہ شرعا پرورش کی اہلیت رکھتی ہو،پس اگر اس نے  بچوں کے غیر محرم سے شادی کرلی تو  ماں کا حق ساقط ہوجائے گا یا اگر پرورش کرنے کی اہلیت نہیں  رکھتی ہو اس طور پر کہ وہ بے حیائی کے کاموں میں مبتلا ہے تو پھر حق پرورش بچوں کینانی،دادی،خالاؤں ،پھوپھیوں  کو بالترتیب منتقلہوجائے گا۔

الدر المختاروحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"باب الحضانة (تثبت للأم) النسبية (ولو) كتابية، أو مجوسية أو (بعد الفرقة) (إلا أن تكون مرتدة) فحتى تسلم لأنها تحبس (أو فاجرة) فجورا يضيع الولد به كزنا وغناء وسرقة ونياحة كما في البحر والنهر بحثا. (أو غير مأمونة) بأن تخرج كل وقت وتترك الولد ضائعا (أو متزوجة بغير محرم) الصغير (أو أبت أن تربيه مجانا و) الحال أن (الأب معسر، والعمة تقبل ذلك) أي تربيته مجانا."

(باب الحضانہ،ج3،ص555،سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101944

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں