بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی گناہ کا کام کرتے وقت منع کرنے پرآخرت کے ساتھ دیکھیں گے کہنے کا حکم


سوال

 اگر کسی کو کہا جائے کہ لڑکیوں کا ایسے سکول میں جانا کہ وہاں مرد پڑھاتے ہیں ،شریعت کے خلاف ہے ،وہ کہے کہ آج کل اس کی ضرورت ہے،پھر اس سے کہا جائے کہ قیامت میں کیا کرو گی؟ تو وہ جواب میں کہے کہ آخرت کے ساتھ دیکھیں گے ،اب تو میں اپنی بیٹی کو پڑھاؤں گی ،اب سوال یہ ہے کہ اب یہ بات کہنے والی اس عورت کا کیا حکم ہے؟ امید ہے جواب تفصیلا اور با حوالہ دیا جائے گا ۔

جواب

واضح رہے کہ جن الفاظ میں ضروریاتِ دین میں سے کسی بات کا انکار یا اعتراض ہو یا صریح حکمِ الٰہی کو تبدیل کرکے بیان کیا جائے یا دین کے کسی بھی حکم یا بات کا استہزا و مذاق اڑایا جائے، اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات و صفات میں سے کسی کا انکار، اعتراض، استہزا یا استخفاف ہو، یا کسی نبی علیہ السلام کی توہین و گستاخی یا استخفاف ہو، یا آخرت کا انکار یا استھزاو مذاق اڑایا جائے وغیرہ، اس قسم کے الفاظ کہنے سے (العیاذ باللہ) کفر ثابت ہوجاتاہے،لیکن اگر کوئی ایسا جملہ بولا جائے جو ضروریاتِ دین کے انکار یا استھزا و مذاق یا تخفیف پر مشتمل نہ ہو تو اس کی وجہ سے اسے کافر نہیں کہا جائے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت کا یہ کہنا کہ " آخرت کے ساتھ دیکھیں گے،اب تو میں اپنی بیٹی کو پڑھاؤں گی "تو یہ جملہ موجبِ کفر تو نہیں ہے ،البتہ ایسا جملہ کہنا حد درجہ بے باکی اور جسارت پر دلالت کرتا ہے،آخرت کا معاملہ بہت ہی سخت ہے،لہذا آئندہ ایسے جملے سے احتراز کرنا چاہیے،باقی جوان لڑکی کا ایسے کالج میں پڑھنا جہاں مرد پڑھاتے ہوں ،جائز نہیں ہے،اس لیے اس عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو ایسے کالج میں تعلیم دلوائے جہاں عورتیں معلمات ہوں اور پردہ کا انتظام ہو،مردوزن کا اختلاط نہ ہو،مخلوط تعلیمی ماحول میں دنیاوی تعلیم دلوانا اور حاصل کرنا سب کے لیے موجبِ گناہ ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها ما يتعلق بيوم القيامة وما فيها) من أنكر القيامة، أو الجنة، أو النار، أو الميزان، أو الصراط، أو الصحائف المكتوبة فيها أعمال العباد يكفر، ولو أنكر البعث فكذلك، ولو أنكر بعث رجل بعينه لا يكفر كذا ذكر الشيخ الإمام الزاهد أبو إسحاق الكلاباذي - رحمه الله تعالى - كذا في الظهيرية."

(كتاب السير،الباب التاسع في أحكام المرتدين،مطلب في موجبات الكفر،274/2،ط:رشيدية)

سنن الترمذی میں ہے:

"عن عقبة بن عامر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إياكم والدخول على النساء، فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله، أفرأيت الحمو، قال: الحمو الموت.وفي الباب عن عمر، وجابر، وعمرو بن العاص.حديث عقبة بن عامر حديث حسن صحيح، وإنما معنى كراهية الدخول على النساء على نحو ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان، ومعنى قوله: الحمو، يقال: هو أخو الزوج، كأنه كره له أن يخلو بها."

( أبواب الرضاع، باب ما جاء في كراهية الدخول علي المغيبات، 351/1 ،ط: رحمانية)

فتاوی شامی میں ہے:

"و لايكلم الأجنبية إلا عجوزًا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا انتهى، وبه بان أن لفظه لا في نقل القهستاني، ويكلمها بما لا يحتاج إليه زائدة فتنبه.

(قوله: زائدة) يبعده قوله في القنية رامزا ويجوز الكلام المباح مع امرأة أجنبية اهـ وفي المجتبى رامزا، وفي الحديث دليل على أنه لا بأس بأن يتكلم مع النساء بما لا يحتاج إليه، وليس هذا من الخوض فيما لا يعنيه إنما ذلك في كلام فيه إثم اهـ فالظاهر أنه قول آخر أو محمول على العجوز تأمل، وتقدم في شروط الصلاة ‌أن ‌صوت ‌المرأة ‌عورة على الراجح ومر الكلام فيه فراجعه."

(كتاب الأضحية،فصل في النظر والمس،369/6،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101397

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں