بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کی گود سے اس کا بچہ گر جائے اور بعد میں مر جائے تو دیت کا حکم


سوال

اگر کسی عورت کی  گود سے اس کا بچہ گر جائے اور اسی دن یا دو ،تین دن بعد مر جائے تو کیا یہ قتل خطا کے زمرے میں آتا ہے، اور اس عورت پر کفارہ لازم ہو گا؟

جواب

 صورت مسئولہ میں اگر بچہ یقینی طورپر گرجانے سے مرا ہویعنی اس میں  گرجانے کے کوئی اثرات زخم وغیرہ ہیں،تو پھر یہ  جاری مجری قتلِ خطا ہے،ا یسی صورت میں بچہ مرجائے تو  عاقلہ پر دیت اور قا تل پر   کفارہ لازم ہوگا،اگر اس بچہ کے مرنے  میں گرجانے کا کوئی اثرنہیں اور تین دن بعد  مرگیا پھر ایسی صورت میں یہ   موت  طبعی شمار ہوگی،اس میں  عاقلہ پر دیت اور قا تل پر   کفارہ لازم نہیں  ہو گا۔

باری تعاٰلیٰ کا ارشاد ہے:

{وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلاَّ خَطَئًا وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلاَّ أَن يَصَّدَّقُواْ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰه وَكَانَ اللّٰه عَلِيمًا حَكِيمًا} [النساء:92]

ترجمہ: "کسی مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرے ، الاَّیہ کہ غلطی سے ایسا ہو جائے اور جو شخص کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کر بیٹھے تو اس پر فرض ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام آزاد کر ے اور دیت ( یعنی خوں بہا) مقتول کے ورثاء کو پہنچائے، الَّایہ کہ وہ معاف کر دیں۔ اور اگر مقتول کسی ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہو جو تمہاری دشمن ہو، مگر وہ خود مسلمان ہو، تو بس ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا فرض ہے (خون بہا دینا واجب نہیں)۔ اور اگر مقتول ان لوگوں میں سے ہے جو ( مسلمان نہیں، مگر) ان کے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ ہے تو بھی یہ فرض ہے کہ خون بہا اس کے وارثوں تک پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کو آزاد کیا جائے۔ ہاں! اگر کسی کے پاس غلام نہ ہو تو اس پر فرض ہے کہ دو مہینے تک مسلسل روزے رکھے۔ یہ توبہ کا طریقہ ہے، جو اللہ نے مقرر کیا ہے اور اللہ علیم وحکیم ہے"۔

* مقتول کی دیت سو اونٹ یا دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار یا اس کے برابر قیمت ہے، اور دیت کی ادائیگی قاتل کی عاقلہ پر لازم ہوتی ہے، اور  دیت میں حاصل شدہ مال مقتول کے ورثہ میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہو گا، جو وارث اپنا حصہ معاف کر دے گا اس قدر معاف ہو جائے گا اوراگر سب نے معاف کر دیا تو سب معاف ہو جائے گا ۔

* کفارے میں مسلسل ساٹھ روزے رکھنا قاتلہ پر لازم ہو گا، کفارہ کے روزے میں اگرمرض کی وجہ سے تسلسل باقی نہ رہے تو از سر نو رکھنے پڑیں گے، ہاں! عورت کے حیض کی وجہ سے تسلسل ختم نہیں ہو گا، یعنی اگر کسی عورت سے قتل ہو گیا  اور وہ 60 روزے کفارہ میں رکھ رہی ہے تو  60 روزے رکھنے کے دوران ماہ واری کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ ماہ واری سے فراغت کے بعد 60 روزوں کو جاری رکھے گی۔
خلاصہ یہ کہ دیت  تو ورثاء کے معاف کرنے سے معاف ہو جائے گی؛  کیوں کہ دیت اور قصاص میں ورثاء کا حق بھی ہے،  اور اس حق کو قرآنِ مجید میں بھی بیان کیا گیا ہے:

{فمن عفی له من اخیه شي ء فاتباع بالمعروف ... الآية} [البقرة: 178]

"ترجمہ: پھر جسے معاف کردیا جائے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ، تو پیروی کرنا ہے دستور کے مطابق ۔۔۔ الخ۔"

لہٰذا دیت یا قصاص لازم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے نفاذ کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، لیکن ورثہ کے حق کا لحاظ رکھتے ہوئے، اگر وہ بدلہ چاہیں تو کوئی طاقت انہیں اس حق سے محروم نہیں کرسکتی، اور اگر وہ معاف کرنا چاہیں تو مجرم سے دنیا میں بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ باقی قتل یا کوئی عضو تلف کرنا اگر ارادے سے ہو تو اس پر جو گناہ لازم ہوگا وہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوگا۔

جہاں تک کفارے کے روزے رکھنے کا حکم ہے تو وہ بہرحال لازم ہوں گے؛ کیوں کہ کفارہ ورثہ کے حق کے طور پر لازم نہیں ہوتا کہ ان کے معاف کرنے سے معاف ہو۔

مجمع الضمانات میں ہے:

"رجل حفر بئرا في الطريق فألقى نفسه فيها متعمدا لا يضمن الحافر، وإن لم يوقع فيها نفسه فسقط وسلم من السقوط ومات فيها جوعا، أو غما لا يضمن الحافر في قول أبي حنيفة وقال أبو يوسف إن مات فيها جوعا فكذلك، وإن مات فيها غما بأن أثر الغم في قلبه قبل الوقوع فمات من ذلك ضمن الحافر وقال محمد يضمن الحافر في الوجوه كلها؛ لأن الموت حصل بسبب الوقوع في البئر."

(باب فی مسائل الجنایات،الفصل الثاني فيما يحدث في الطريق فيهلك به إنسان أو دابة،ص:180،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ھندیہ میں ہے:

"صبي مات في الماء أو سقط من السطح فمات، فإن كان ممن يحفظ نفسه لا شيء على الأبوين، وإن كان ممن لا يحفظ نفسه فعليهما الكفارة إن كان في حجرهما، وإن كان في حجر أحدهما فعليه الكفارة هكذا عن نصير، وعن أبي القاسم في الوالدين إذا لم يتعاهد الصبي حتى سقط من سطح ومات، أو احترق بالنار لا شيء عليهما إلا التوبة والاستغفار، واختيار الفقيه أبي الليث - رحمه الله تعالى - على أنه لا كفارة عليهما، ولا على أحدهما إلا أن يسقط من يده والفتوى على ما اختاره أبو الليث - رحمه الله تعالى - كذا في الظهيرية وهو الصحيح كذا في فتاوى قاضي خان."

(الباب التاسع في الأمر بالجناية ومسائل الصبيان وما يناسبها،ج:6،ص:33،ط:دار الفکر)

وایضا فیہ:

"ويغسل من ارتث وهو من صار خلقا في حكم الشهادة لنيل مرافق الحياة وهو أن يأكل أو يشرب أو ينام أو يداوى أو ينقل من المعركة حيا..ويغسل.. لو قام من مكانه أو تحول إلى مكان آخر، هكذا في الخلاصة."

(الفصل السابع فی الشھید،ج:1،ص:168،ط:دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(أما) وجوب الدية فلوجود معنى الخطأ، وهو عدم القصد (وأما) وجوب الكفارة وحرمان الميراث والوصية فلوجود القتل مباشرة...والاحتراز عن سقوط المحمول ممكن أيضاً".

(كتاب الجنايات،القتل الذي هو في معنى القتل الخطأ نوعان،ج:7،ص:271،ط:دار الکتب العلمیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505101302

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں