بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی ایک وارث کا ترکہ پرقبضہ کرکے تقسیم نہ کرنے کا حکم


سوال

میرے والد صاحب نے اپنےوالد صاحب کی وراثت یعنی جائیداد شرعی طور پر تقسیم نہیں کی تھی،اب میرے والد صاحب کے انتقال کو22سال ہوگئےہیں ،جب کہ میرے بھائیوں نےبھی وراثت تقسیم نہیں کی ،دوسال پہلے میرے ایک بھائی کابھی انتقال ہوا ہے،اس کی اولاد نہیں ہے،یعنی ہماری جائیداد میں پھوپھی کااور انتقال شدہ بھائی اورپھراس کی بیوہ کاحصہ ہے،لیکن میرے بھائی وراثت کو شرعی طور پر تقسیم نہیں کرنا چاہتے ہیں اورمیں چاہتاہوں کہ ہرحصہ دارکواس کاحصہ ملے،لیکن بھائی ایسانہیں کرناچاہتے،آپ راہنمائی فرمائیں کہ میں اس گناہ سے کیسےبچ سکتاہوں ؟اس صورتِ حال میں میرےلیےکتناحصہ لینا جائز ہوگا؟تاکہ آخرت بھی خراب نہ ہواوراپناجائزحق بھی مجھے ملے،میرے والد کا کوئی سگا بھائی نہیں تھا ،ایک سگی بہن تھی اور ایک سوتیلی بہن تھی۔

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعداس کے ترکہ کی ہرایک چیز  سے اس کے   تمام شرعی ورثاء کا  حق متعلق ہوجاتا ہے، کسی ایک وارث  کاترکہ  پر قبضہ کر کے دیگرورثاء کو ان کاحق نہ دینا ناجائز وحرام ہے،اس وارث پرشرعاً لازم ہوتاہے کہ وہ ترکہ پر سےاپنا ناجائز قبضہ ختم کرکے وہ تمام ورثاء میں شرعی طریقہ سے تقسیم کردے ،ورنہ آخرت میں اس کو ان کا حق ادا کرناہوگا اور آخرت کا معاملہ بہت نازک ہےاور دوسرے کے حق پر ناجائز قبضہ کرنے پر احادیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں،ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائل کے والد نے جو اپنے والد کے ترکہ پر قبضہ کرکے دیگر ورثاء کو ان کا حصہ نہیں دیا تو اس کا یہ فعل شرعاً ناجائز و حرام تھا ،جس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوئے ہیں ،اب ان کے انتقال کے بعد سائل کے بھائیوں کا ترکہ پر قبضہ کرکے اسے شرعی طریقے پر تقسیم نہ کرنا تو ان كا يه فعل بھی شرعاً ناجائز فعل ہے،اور سائل جب اپنے حصے کا مطالبہ کررہا ہےتو ان پر لازم ہے کہ وہ ترکہ کو شرعی طور پر تقسیم کرکے ہر وارث کو اس کا حق ادا کردیں،پہلے دادا کے ترکہ کو ( جس پر سائل کے والد نے قبضہ کیا ہوا تھا)تقسیم کرکے دادا کے ہر ایک وارث کو اس کا حق ادا کردیں ،اس کے بعد اپنے والد کے تمام ترکہ کو (چاہے وہ سائل کے دادا کے ترکہ سے ملنے والا حصہ ہو یا ان کی اپنی کمائی سے حاصل کیا گیا ہو)تمام ورثاء میں شرعی طریقہ سے تقسیم کردیں، ہر وارث کا حصہ معلوم ہونے سے پہلے  سائل کا حصہ بھی معلوم نہیں ہوسکتا ،سائل کو چاہیے کہ وہ اپنے بھائیوں کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ میراث کو شرعی طریقہ سے تقسیم کرکے ہر ایک وارث کواس کا شرعی حصہ ادا کردیں۔

اپنے دادا اور والد کے تمام ورثاء کی تفصیل بھیج کر ہر وارث کا حصہ معلوم کرسکتے ہیں۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين."

ترجمہ:" حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔"

(كتاب البيوع ،باب الغصب والعارية، الفصل الأول،254/1، ط:قديمي)

بخاری شریف میں ہے:

"أن ‌أبا سلمة حدثه: أنه «كانت بينه وبين أناس خصومة، فذكر لعائشة رضي الله عنها، ‌فقالت: ‌يا ‌أبا ‌سلمة، ‌اجتنب ‌الأرض، فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من ظلم قيد شبر من الأرض طوقه من سبع أرضين."

(أبواب المظالم والقصاص،باب إثم من ظلم شيئا من الأرض،431/1،ط:رحمانية)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے :

"ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره ،وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه."

(کتاب الشرکة ، الباب الأول في بيان أنواع الشركة، 301/2،ط: رشیدیة)

فتاوی شامی  میں ہے :

"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها للعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض."

 (کتاب القسمة، 260/6،ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408100153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں