بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی دوسرے سے اپنے لیے استخارہ کروانے کا حکم


سوال

 کیا کوئی آدمی کسی کے لیے استخارہ کر سکتا ہے اگر کر سکتا ہے تو  اس کا طریقہ کیا ہوگا ؟ 

جواب

احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتاہے  کہ جس شخص کی حاجت ہو وہ خود استخارہ کرے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو استخارہ کا طریقہ اس اہتمام سے تعلیم فرماتے تھے جیسے قرآنِ کریم کی سورت یا آیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے امور میں مشورہ تو لیتے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’استخارہ‘‘  نہیں کرواتے تھے، حالاں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مقدس وبرگزیدہ کوئی انسان نہیں، نیز اس وقت وحی بھی نازل ہوتی تھی جس کی روشنی میں خیر وشر یقینی طورپر معلوم ہوسکتاتھا، لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نہ کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے لیے استخارہ کروایا اور نہ ہی کسی اور کے لیے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے استخارہ کیا، پس رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ  آنے والی پوری امت کی تربیت اس نہج پر فرمائی کہ امت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ سے خود تعلق قائم کرے، اور مہربان رب سے ہر شخص اپنی حاجت مانگنے کے ساتھ خود ہی خیر کا خواست گار ہو۔

لہٰذا مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی دوسرے سے اپنے لیے استخارہ کروانا اگرچہ جائز  تو ہے، لیکن سنت یہی ہے کہ کوئی مسلمان خواہ کتنا ہی گناہ گار ہو  وہ خود سے استخارہ کرے۔ 

استخارہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہودو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ ہو کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔ سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی مسنون دعا مانگیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے، استخارہ کی مسنون دعا:

سنن الترمذی میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن، يقول: إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم، وأنت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري، أو قال: في عاجل أمري وآجله، فيسره لي، ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري، أو قال: في عاجل أمري وآجله، فاصرفه عني، واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان، ثم أرضني به، قال: ويسمي حاجته."

(أبواب الوتر، باب ما جاء في صلاة الاستخارة، ج:1، ص:490، ط: دار الغرب الإسلامي بيروت)

دعاکرتے وقت جب  "ھذا الامر "پر پہنچے تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی "هذا الامر "کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلاً: "هذا السفر "یا "هذا النکاح " یا "هذه التجارة "یا "هذا البیع "کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو"هذا الأمر "کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ۔

استخارے کے بعد  جس طرف دل مائل ہو وہ کام کرے۔ اگر ایک دفعہ میں قلبی اطمینان حاصل نہ ہو تو سات دن تک یہی عمل دہرائے، ان شاء اللہ خیر ہوگی۔استخارہ کے لیے کوئی وقت خاص نہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ رات میں سونے سے پہلے جب یکسوئی کا ماحول ہو تو استخارہ کرکے سوجائے، لیکن خواب آنا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اصل بات قلبی رجحان اور اطمینان ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100964

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں