پچھلے سال 2019ء میں سانحہ تیزگام پیش آیا، جس میں کئی افراد شہید ہو گئے، ایک مسجد کے امام صاحب ایک دن اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ان شہداء کے غم میں نماز میں رو دیے، بس قرأت کرتے ہوئے اور نماز کے باقی افعال ادا کرتے ہوئے رونے کی آواز تھی، کسی بھی قسم کے کوئی اور حروف وغیرہ کچھ بھی نہیں تھے، تو کیا اس سے نماز میں فرق آ جاتا ہے؟
بصورتِ مسئولہ نماز میں رونا اگر مذکورہ حادثے کی وجہ سے ہو مگر الفاظ اور حروف پیدا نہ ہوں تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو أنّ في صلاته أو تأوه أو بكى فارتفع بكاؤه فحصل له حروف فإن كان منذكر الجنة أو النار فصلاته تامة وإن كان من وجع أو مصيبة فسدت صلاته ولو تأوه لكثرة الذنوب لايقطع الصلاة ولو بكى في صلاته، فإن سال دمعه من غير صوت لاتفسد صلاته وتفسير الأنين أن يقول: آه آه وتفسير التأوه أن يقول: أوه،كذا في التتارخانية. ولو قال: آخ آخ تفسد بالإجماع، وإن لم يكن مسموعًا لاتفسد ويكره؛ لأنه ليس بكلام، كذا في محيط السرخسي."
(الباب السابع فيما يفسد الصلوة، ج:1، ص:101، ط:مكتبه رشيديه)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144203200927
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن