بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی چیز پر قبضہ کرنے کے بعد اس کو قسطوں پر فروخت کرنا جائز ہے


سوال

کیا فرماتے ہیں علماکرام اس بارے میں کہ میں قسطوں  کا کام کرتا ہوں میری دکان میں جو مال ہے اس کے علاوہ کسٹمر باہر سے سامان پسند کرتے ہیں، ہم اس کو نقد پر خرید کر  قسطوں پر دیتے ہیں، اکثر قیمت بھی وہ طے کر کے آتے ہیں، یعنی فلاں چیز 50.000روپے کی ہے مجھے دلادو۔کیا یہ جائز ہے؟

جواب

جواب سے پہلے بطورِ تمہید چند باتیں ملاحظہ ہوں:

1۔ ہر شخص  کے  لیے اپنی مملوکہ  چیز  کو  اصل قیمت میں کمی زیادتی کے ساتھ نقد  اور ادھار دنوں طرح  فروخت کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور جس طرح سامان  فروخت کرنے والا اپنے سامان کی قیمت یک مشت وصول کرسکتا ہے ، اسی  طرح اس کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے  کہ وہ اس رقم کو ادھاکرکے قسط وار وصول کرے،  اسے اصطلاح میں ”بیع بالتقسیط“ یعنی قسطوں پر خریدوفروخت  کہتے ہیں۔

2۔ قسطوں پر خرید وفروخت میں  درج ذیل  شرائط کا لحاظ  اور رعایت کرنا ضروری ہے:

قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ پہلے متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار،  اور عقد کے وقت مجموعی قیمت مقرر ہو، اور ایک شرط یہ بھی  ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے، اور جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی عقد میں مشروط نہ ہو۔  اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا، ان شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدوفروخت کرنا جائز ہے۔

3۔ کسی بھی چیز کو اپنی ملکیت میں آنے سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی بھی منقولی چیز کو خریدنے کے بعد اس پر قبضہ کرنے پہلے اسے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔

صورت مسئولہ میں  پہلے آپ  مذکورہ چیز   کے مالک سے سودا کرکے اس سے وہ چیز   خرید لیں اور پھر اس چیز پر   خود یا اپنے وکیل کے ذریعہ قبضہ کرلیں اور اس کے بعد اس پر نفع رکھ کر قسطوں پر ماقبل میں ذکر کردہ شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے فروخت کردیں تو یہ جائز ہے۔

فتح القدیر لابن الهمام میں ہے:

"ومن اشترى شيئًا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض."

(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولية، فصل اشترى شيئا مما ينقل ويحول، ٦ / ٥١٠ - ٥١١، ط: دار الفكر)

تبين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

 "لايجوز بيع المنقول قبل القبض؛ لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام: «إذا ابتعت طعامًا فلاتبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا."

( کتاب البیوع، باب التولیة، فصل بيع العقار قبل قبضه، ٤ / ٨٠ ، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100173

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں