ایک آدمی ہے اس نے مجھے کہا کہ آپ نقد پیسوں میں گاڑی خریدو، اور مجھے سال دو سال کی قسطوں پر مہنگا دے دو ، گاڑی کی قیمت پہلے سے متعین نہیں کی اور نہ منافع طے ہوا، بلکہ جب میں نے اس کےلیے گاڑی خریدی 40000سعودی ریال میں اور میں نے ایک سال کی قسطوں پر اس کو 70000 ریال گاڑی دی، تو وہ راضی نہیں ہو ا کہ آپ مجھے گاڑی مہنگی دے رہے ہو ، میں نے اس کو بولا کہ یہ گاڑی تو میں نے اپ کےلیے خریدی ہے،اب آپ کو یہ گاڑی لازمی لینی ہوگی، بہرحال کسی نےہمارے درمیان 65000 ریال پر صلح کروادی، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اس میں گناہ یا سود تو نہیں ہے؟
صورتِ مسئولہ میں آپ نے گاڑی قبضے میں آنے کے بعد باقاعدہ خریدار سے باہمی رضامندی سے قسطوں پر فروخت کرنے کا معاہدہ کیا، اور قسطوں کی ادائیگی میں کسی وجہ سے تاخیر پر کوئی اضافی رقم یا جرمانہ نہیں رکھا تو یہ معاملہ درست ہے۔
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد."
(باب البيوع الفاسدة، ج:8، ص:13، ط:مطبعة السعادة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503101398
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن