بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی عالم پر بہتان لگانا


سوال

اگر کوئی شخص کسی عالم دین پر کچھ بہتان لگائے یا کسی چیز کی چوری کا الزام لگائے ، اور ثبوت بھی کوئی نہ ہوں ، ایسے آدمی کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

کسی عام مسلمان پر بلاثبوت کے کسی چیز کا بہتان لگانا بڑا گناہے چہ  جائے کہ کسی عالم پر الزام لگایا جائے ۔ اس میں کئی پہلو سے گناہ اور قباحت جمع ہوجاتے ہیں ،نیز اہلِ علم کی بے حرمتی گم راہی اور خدا کی دشمنی مول لینے کا سبب ہے۔ بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ کسی بھی مسلمان کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی طرح ہے، اور علماء کی برائی کرنا ایسا ہے جیسے مردہ بھائی کا زہریلا گوشت کھانا۔ یعنی علماء کی غیبت یا برائی کی صورت میں محرومی اور تباہی تقریباً یقینی ہے۔

’’جامع بیان العلم و فضلہ ‘‘میں ہے:

"أن عون بن عبد الله، حدثه قال: حدثت عمر بن عبد العزيز أنه كان يقال: إن استطعت فكن عالمًا، فإن لم تستطع فكن متعلمًا، وإن لم تستطع فأحبهم، وإن لم تستطع فلا تبغضهم.فقال عمر بن عبد العزيز: لقد جعل الله -عز وجل- له مخرجًا إن قبل."

حضرت عون بن عبد اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"میں نے امیر المومنین عمر بن عبد العزیز سے عرض کیا:
کہا جاتا ہے کہ اگر تم میں ایک عالم بننے کی صلاحیت ہو تو جہاں تک ممکن ہو , عالم بننے کی کوشش کرو، اور اگر تم عالم نہیں بن سکتے تو پھر ایک طالب علم بنو، اور اگر طالب علم بننے کی بھی صلاحیت نہیں ہے تو پھر ان سے (علماء و طالب علم) سے محبت کرو، اگر تم ان سے محبت کے قابل بھی نہیں ہو تو پھر (کم از کم) ان سے نفرت مت کرو۔
عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا:
 سبحان اللہ ! اللہ نے اس (آخری ) بندے کو بھی مہلت دی ہے۔"

[ جامع بيان العلم وفضله ،ج:۱،ص:۷۱،ط:مؤسسۃ الریان]

یعنی روایت کی رو سے مسلمان بندے کو چاہیے کہ یا تو وہ عالم بنے، یا طالبِ علم بنے یا ان سے محبت کرنے والا، اور آخری صورت گنجائش کی یہ دی گئی ہے کہ کم از کم علماء و طلبہ دین سے نفرت نہ رکھے۔ اگر پانچویں قسم بنے گا تو ہلاک ہوجائے گا۔

’’سیراعلام النبلاء ‘‘میں ہے :

"عن ابن المبارك، قال: من استخف بالعلماء، ذهبت آخرته، ومن استخف بالأمراء، ذهبت دنياه، ومن استخف بالإخوان، ذهبت مروءته.

ترجمہ: حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا، جو شخص بھی حکم رانوں کی بے قدری کرے گا وہ دنیوی زندگی سے محروم رہے گا اور جو شخص بھی اپنے بھائی کی بے قدری کرے گا وہ اچھے اخلاق و کردار سے محروم رہے گا۔"

[سير أعلام النبلاء ،ج:۱۵،ص:۴۰۷،ط:مؤسسۃ الرسالۃ بیروت]

مسلم شریف کی روایت میں ہے:

"عن أبى ذر أنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول « ليس من رجل ادعى لغير أبيه وهو يعلمه إلا كفر ومن ادعى ما ليس له فليس منا وليتبوأ مقعده من النار ومن دعا رجلا بالكفر أو قال عدو الله. وليس كذلك إلا حار عليه »۔

ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہیے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حال آں کہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا۔"

(صحیح مسلم،باب بيان حال إيمان من رغب عن أبيه وهو يعلم،ج:۱،ص:۵۷،ط:دارالجیل بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں