بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی آدمے کو پتا چلے کے مارکیٹ میں نقصان ہورہا ہے اس کی کیا ذمہ داری ہے؟


سوال

شئیرز کی خریدو فروخت کرتا ہوں اور علماء کرام کی تمام واضح کردہ شرائط بھی ملحوظ خاطر رکھتا ہوں، لیکن پھر بھی ایک کھٹکا سا دل میں رہتا ہے کہ کافی لوگ سٹاک مارکیٹ میں اپنی غلطیوں کی وجہ سے نقصان اٹھاتے ہیں، ان کے نقصان اٹھانے کی وجہ سے ہمارا منافع مزید بڑھ جاتا ہے مزید یہ کہ جب مجھے لگتا ہے کہ شیئر کی قیمت گرنے کے امکانات زیادہ ہو گئے ہیں تو میں انھیں بیچ کر خود تو محفوظ ہو جاتا ہوں،  لیکن جو مجھ سے خریدتا ہے وہ اپنی غلط اپروچ کی وجہ سے نقصان اٹھاتا ہے، لیکن وہ اپنی مرضی سے خرید رہا ہوتا ہے،کیا اس طرح سے حاصل ہونے والا منافع مکروہ کے زمرے میں تو نہیں آتا؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل جائز شیئرز  کا کاروبار کرتا ہے، تو پھرسائل سے شئیرز خریدنے والے لوگ اپنے ارادہ اور اختیارسے سائل سے شئیرز خریدتے ہیں ،جب کہ وہ صحیح العقل اور متمیز بھی ہیں اور خریداری کے معاملہ کے وقت مبیع (فروخت شدہ شئیرز)میں  کوئی عیب بھی  نہیں ،توسائل کےلیے شرعاًان کو شیئرز فروخت کرناجائز ہے، اس کے بعد اگر کسی شئیرز  میں کوئی   نقصان ہوتاہےتو سائل اس کاذمہ دار نہیں ۔ 

شرح الأربعين النوويه لابن دقيق العيد میں ہے:

"اعلم أن من أضر بأخيه فقد ظلمه والظلم حرام كما تقدم في حديث أبي ذر "يا عبادي إني حرمت الظلم على نفسي وجعلته بينكم محرماً فلا تظالموا"  وقال النبي صلى الله عليه وسلم: "إن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام.

وأما قوله: "لا ضرر ولا ضرار" فقال بعضهم: هما لفظان بمعنى واحد تكلم بهما جميعاً على وجه التأكيد، وقال ابن حبيب: الضرر عند أهل العربية الاسم والضرار الفعل: فمعنى "لا ضرار" أي لا يدخلأحد على أحد ضرراً لم يدخله على نفسه. ومعنى "لا ضرار" لا يضار أحد بأحد. وقال المحسني: الضرر هو الذي لك فيه منفعة وعلى جارك فيه مضرة وهذا وجه حسن المعنى. وقال بعضهم: الضرر والضرار مثل القتل والقتال فالضرر أن تضر من لا يضرك: والضرار: أن تضر من أضر بك من غير جهة الاعتداء بالمثل والانتصار بالحق."

(لاضرر ولاضرار،ص:107،ط:مؤسسة الريان)

فتاوی شامی میں ہے:

"(باع ما اشتراه فرد) المشتري الثاني (عليه بعيب رده على بائعه لو رد عليه بقضاء) ؛ لأنه فسخ، ما لم يحدث به عيب آخر عنده فيرجع بالنقصان، وهذا (لو بعد قبضه) فله قبله رده مطلقًا في غير العقار كالرد بخيار الرؤية أو الشرط درر، و هذا إذا باعه قبل اطلاعه على العيب، فلو بعده فلا رد مطلقًا، بحر".

 (کتاب البیوع، باب خیار العیب،5،ص:26،ط: سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100984

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں