بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی سے اس کی دلی رضا کے بغیر پیسے لینے کا حکم


سوال

ہمارے مدرسہ میں داخلے کے وقت طلبہ سے 200 روپے لیے جاتے ہیں، یہ رقم داخلہ فیس، رہائش کی فیس اور دیگر اخراجات کے بغیر لی جاتی ہے، یہ مدرسہ کے فنڈ میں جمع نہیں ہوتا، بلکہ قافلہ کے فنڈ میں علیحدہ  رکھا جاتا ہے،سال کے آخر میں اس رقم سے طلبہ کے درمیان حمد، قرات ،غزل کے مقابلے کرائے جاتے ہے، ان میں پہلے دوسرے تیسرے نمبر پر آنے والوں کو انعام دیا جاتا ہے۔ کیا یہ جائز ہے؟ بعض تو یہ کہتے ہیں کہ مدرسہ اس روپیہ کا مالک ہو جاتا ہے کیا ان کایہ قول صحیح ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ  مدرسہ مذکورہ رقم  کس مد میں وصول کرتا ہے؟لہذا وضاحت کر کے دوبارہ سوال بھیج دیں۔

البتہ اگر مدرسہ یہ رقم   حمد، قرات وغیرہ  کے مقابلوں  اور ان میں پوزیشن لینے والے افراد  کو بطورِ انعام  دینے کے لیے طلباء سے وصول کرتا ہے ،تو اس میں اس بات کو مدِ نظر رکھنا چاہیئے کہ طلباء یہ رقم اپنی خوشی سے دیں،ان پر کوئی زبردستی نہ ہو ،اور کوئی مخصوص مقدار بھی ان پرمقرر نہ ہو ،بلکہ جو اپنی مرضی سے جتنا چاہے دے دیں ،اور اگر کوئی دینانہیں  چاہتا ہو تو اس پر  اس کو ملامت بھی نہ کیا جاتا ہو ،اگراس رقم میں ان باتوں کا لحاظ رکھا جاتا ہو،تو شرعاًیہ رقم لینا جائز ہے ، اور اگر  ان باتوں کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تو  جائز نہیں ہے۔

كنز العمال میں ہے:

"يا أيها الناس؛ تدرون في أي شهر أنتم؟ وفي أي بلد أنتم وفي أي يوم أنتم؟ قالوا: يوم حرام وشهر حرام وبلد حرام، قال: فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا، اسمعوا تعيشوا، ألا لا تظالموا ثلاثا، إنه لا يحل مال امرء مسلم إلا بطيب نفس منه۔۔۔ألا ومن كانت عنده أمانة فليؤدها إلى من ائتمنه عليها ألا هل بلغت ألا هل بلغت ليبلغ الشاهد الغائب فإنه رب مبلغ أسعد من سامع. "حم والبغوي والباوردي وابن مردويه عن أبي حرة الرقاشي عن عمه"۔

(کتاب الحج والعمرۃ، الباب الثالث: في العمرة وفضائلها وأحكامها وأحكام ذكرت في حجة الوداع، ج:5، ص:130،131، حدیث:12357، ط:مؤسسة الرسالة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102558

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں